وزیراعظم کی زلمے خلیل زاد سے ملاقات، افغان مفاہمتی عمل پر تبادلہ خیال

اپ ڈیٹ 29 اکتوبر 2019
امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد نے وزیراعظم عمران خان کے ساتھ خصوصی ملاقات کی —تصویر: ڈان نیوز
امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد نے وزیراعظم عمران خان کے ساتھ خصوصی ملاقات کی —تصویر: ڈان نیوز

اسلام آباد: امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد نے وزیراعظم عمران خان کے ساتھ خصوصی ملاقات کی، جس میں افغان امن عمل کی بحالی کے بارے میں بات چیت کی گئی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق امریکی سفیر رواں ماہ کے دوران دوسری مرتبہ پاکستان کے دورے پر آئے ہیں، جس میں ان کی افغان مفاہمتی عمل کی تازہ ترین صورتحال کے حوالے سے اعلیٰ سول اور فوجی حکام سے ملاقاتیں بھی متوقع ہیں۔

وزیراعظم عمران خان نے زلمے خلیل زاد کو بتایا کہ ایک دیرینہ دوست کی حیثیت سے پاکستان، امریکا اور طالبان کے مابین بات چیت کی بحالی کے لیے اپنی ہر ممکن کوششیں کرنے کے لیے تیار ہے۔

یہ بھی پڑھیں: طالبان سے مذاکرات کی بحالی کیلئے امریکی سیکریٹری دفاع افغانستان پہنچ گئے

عمران خان کا کہنا تھا کہ اب تک بھرپور کوششوں کے نتیجے میں حاصل ہونے والی پیش رفت کو کمزور ہونے سے بچانے کے لیے کسی بھی فریق کی جانب سے منفی بیانیوں کو روکنا بھی مساوی اہمیت کا حامل ہے۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے زلمے خلیل زاد کو آگاہ کیا کہ پاکستان امن عمل کو جلد نتیجہ خیز بنانے اور اس حوالے سے مشترکہ ذمہ داری نبھاتے ہوئے مخلص دوست اور سہولت کار کی حیثیت سے اپنی استعداد کے مطابق ہر ممکن کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان اور خطے میں پائیدار امن اور سلامتی کا حصول اور دیرپا ترقی و خوشحالی کو یقینی بنانا پاکستان کے بہترین قومی مفاد میں ہے۔

مزید پڑھیں: مسئلہ کشمیر، افغان مذاکرات پر اثر انداز ہوسکتا ہے، رپورٹ

یاد رہے کہ اپنے گزشتہ دورے کے دوران زلمے خلیل زاد نے قطر سے آئے ہوئے طالبان وفد کے ساتھ خفیہ ملاقات کی تھی اور مذاکرات کی بحالی کے حوالے سے گفتگو کی تھی۔

افغان امن عمل منسوخ ہونے کے بعد اب تک کیا ہوا؟

یاد رہے کہ 8 ستمبر کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ اعلان کر کے سب کو حیران کردیا تھا کہ انہوں نے سینئر طالبان قیادت اور افغان صدر اشرف غنی کو کیمپ ڈیوڈ میں ملاقات کی دعوت دی تھی، تاہم آخری لمحات میں انہوں نے طالبان کے ایک حملے میں ایک امریکی فوجی کی ہلاکت پر یہ مذاکرات منسوخ کردیے تھے۔

اس پر ردِ عمل دیتے ہوئے طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے مذاکرات کا سلسلہ معطل کردیا تاہم اب امریکا کو پہلے کے مقابلے میں زیادہ غیر معمولی نقصان کا سامنا ہوگا لیکن پھر بھی مستقبل میں مذاکرات کے لیے دروازے کھلے رہیں گے۔

امریکا کے ساتھ مذاکرات منسوخ ہونے کے بعد طالبان وفد 14 ستمبر کو روس بھی گیا تھا، جس کے بارے میں طالبان رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا تھا کہ دورے کا مقصد امریکا کے ساتھ مذاکرات بحال کرنے کی کوشش نہیں بلکہ امریکا کو افغانستان سے انخلا پر مجبور کرنے کے لیے علاقائی حمایت کا جائزہ لینا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: افغان امن مذاکرات معطل: طالبان کی امریکا کو سخت نتائج کی دھمکی

بعد ازاں طالبان وفد نے 29 ستمبر کو بیجنگ کا دورہ کیا تھا اور چینی نمائندہ خصوصی ڈینگ ژی جون سے ملاقات کی تھی۔

ان مذاکرات کی معطلی سے قبل قطر کے دارالحکومت دوحہ میں جاری مذاکراتی عمل کے حوالے سے امریکی اور طالبان نمائندوں نے بتایا تھا کہ انہوں نے ایک طریقہ کار پر اتفاق کیا جسے جلد حتمی شکل دے دی جائے گی۔

لہٰذا اگر یہ معاہدہ ہوجاتا تو ممکنہ طور پر امریکا، افغانستان سے اپنے فوجیوں کو بتدریج واپس بلانے کا لائحہ عمل طے کرتا جبکہ طالبان کی جانب سے یہ ضمانت شامل ہوتی کہ افغانستان مستقبل میں کسی دوسرے عسکریت پسند گروہوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ نہیں ہوگا۔

تبصرے (0) بند ہیں