طالبان جنگجوؤں کو افغان معاشرے میں دوبارہ ضم کرنے تک امن کا حصول دشوار

اپ ڈیٹ 02 نومبر 2019
مذاکرات ختم ہونے کے باوجود دونوں فریقین بات چیت بحال کرنے کے خواہشمند نظر آئے —فائل فوٹو: اے پی
مذاکرات ختم ہونے کے باوجود دونوں فریقین بات چیت بحال کرنے کے خواہشمند نظر آئے —فائل فوٹو: اے پی

واشنگٹن: امریکا کی جانب سے افغانستان میں متحارب سابق جنگجوؤں کو دوبارہ افغان معاشرے میں سماجی اور اقتصادی طور پر ضم کرنے کا پروگرام کامیاب نہیں ہوسکے گا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق خصوصی انسپکٹر جنرل برائے افغان بحالی کے دفتر کی جانب سے مرتب کردہ رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی گئی طالبان جنگجوؤں کو ہدف بنانے کے منصوبے سے نہ تو شورش کا خاتمہ ہوا اور نہ ہی اس کے ساتھ جاری مفاہمتی کوششوں سے کوئی معاونت ملی۔

اپنی رپورٹ میں انسپکٹر جنرل جان سوپکو کا کہنا تھا کہ اگر افغانستان میں کبھی حقیقی اور پائیدار امن ہوا تو اس کے لیے طالبان اور دیگر جنگجوؤں کا ضم ہونا ایک اہم عنصر ہوگا، چاہے یہ عمل دنوں پر محیط ہو یا برسوں تک۔

یہ بھی پڑھیں: ’افغان اور طالبان حکومت کے درمیان مذاکرات ہونے تک کابل میں امن نہیں ہوسکتا‘

ایس آئی جی اے آر کی یہ رپورٹ جمعے کو جاری کی گئی تھی جس میں افغان امن عمل کی بحالی کی کوششون پر نظرِ ثانی بھی کی گئی تھی اور اس کا مقصد افغانستان میں 18 سال سے جاری تنازع کا خاتمہ تھا۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ اکتوبر 2018 سے امریکا اور طالبان نمائندے افغان تنازع کو حل کرنے کے لیے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ملاقات کررہے تھے، تاہم طالبان کے انکار کے باعث اس میں کابل حکومت شامل نہیں ہوئی۔

رپورٹ میں اس بات کا بھی تذکرہ کیا گیا کہ دوحہ میں ہونے والی بات چیت میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا اور افغانستان کی سرزمین کو دہشت گرد حملوں کے لیے استعمال کرنے سے روکنے کی شرائط شامل تھیں۔

مزید پڑھیں: امریکا کو چین کی میزبانی میں بین الافغان مذاکرات قبول

تاہم مذاکرات ختم ہونے کے باوجود دونوں فریقین بات چیت بحال کرنے کے خواہشمند نظر آئے جبکہ اقوامِ متحدہ نے طالبان اور کابل حکومت کے مابین جلد از جلد بات چیت کا مطالبہ کیا ہے۔

دوسری جانب ایس آئی جی اے آر کی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ ’اگر بین الافغان مذاکرات کے نتیجے میں کوئی سمجھوتہ بھی ہوگیا اور اس سے دوبارہ انضمام کا منصوبہ شروع کردیا جائے تب بھی دیگر پیچیدگیاں سامنے آجائیں گی، مثلاً ہوسکتا ہے کہ کچھ طالبان جنگجو اس معاہدہ کا حصہ بننے کو نہ تیار ہوں۔

رپورٹ میں یہ انتباہ بھی دیا گیا کہ اگر امن سمجھوتے میں تمام جنگجو شامل ہو بھی جائیں تو ان سابق جنگجوؤں کو دوبارہ ضم کرنے کی کوشش سے تشدد روکنے میں وقفہ آجائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: افغان امن مذاکرات معطل: طالبان کی امریکا کو سخت نتائج کی دھمکی

رپورٹ میں دوبارہ ضم کرنے کی وسعت کو واضح کرتے ہوئے ایس آئی جی آر نے ذکر کیا کہ جب افغان حکومت اور طالبان کسی سیاسی سمجھوتے پر پہنچ جائیں تو تقریباً 60 ہزار حقیقی طالبان اور ان کے علاوہ متعدد غیر طالبان جنگجوؤں کو دوبارہ معاشرے میں ضم کرنا ہوگا۔

تبصرے (0) بند ہیں