سانحہ تیز گام: غفلت برتنے پر ریلوے کے 6 افسران معطل، ایک کا تبادلہ

اپ ڈیٹ 05 نومبر 2019
ایف جی آئی آر سانحے کی وجوہات کے حوالے سے اپنی تفصیلی تحقیقاتی رپورٹ آئندہ 2 ہفتوں میں پیش کرے گا—تصویر: اے ایف پی
ایف جی آئی آر سانحے کی وجوہات کے حوالے سے اپنی تفصیلی تحقیقاتی رپورٹ آئندہ 2 ہفتوں میں پیش کرے گا—تصویر: اے ایف پی

لاہور: سانحہ تیزگام ایکسپریس کے بعد پاکستان ریلوے نے فرائض کی انجام دہی میں غفلت برتنے پر گریڈ 17 اور 18 سے تعلق رکھنے والے 6 افسران کو معطل کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ریلوے حکام نے اس بات کا فیصلہ فیڈرل گورنمنٹ انسپکٹرز آف ریلوے (ایف جی آئی آر) کی ابتدائی تحقیقات کی روشنی میں کیا جس کی رپورٹ ہفتے کی رات فیڈرل سیکریٹری یا چیئرمین کو پیش کی گئی تھی۔

تاہم ایف جی آئی آر سانحے کی وجوہات کے حوالے سے اپنی تفصیلی تحقیقاتی رپورٹ آئندہ 2 ہفتوں میں پیش کرے گا۔

علاوہ ازیں پی آر ایڈمن نےگریڈ 20 ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ ملتان کو بھی ان کے عہدے سے ہٹا دیا اور ان کے تبادلے کی وجوہات نہیں بتائیں تاہم ایک عہدیدار نے بتایا کہ ان کی برطرفی کا معاملہ بھی تیزگام ایکسپریس آتشزدگی سے منسلک ہے۔

یہ بھی پڑھیں:رحیم یار خان: تیزگام ایکسپریس میں آتشزدگی، جاں بحق افراد کی تعداد 74 ہوگئی

ایف جی آئی آر کی رپورٹ کی روشنی میں ریلوے حکام نے جن افسران کو معطل کیا ان میں ریلوے کراچی ڈویژن کے کمرشل آفیسر جنید اسلم، اسسٹنٹ کمرشل آفیسرز (اے سی اوز) عابد قمر شیخ اور راشد علی، کراچی اور سکھر ڈویژن کے ریلوے پولیس کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹس پولیس (ڈی ایس پیز) دلاور میمن اور حبیب اللہ خٹک شامل ہیں۔

ریلوے عہدیدار کے مطابق ان کے علاوہ عامر محمد داؤد پوتا کو ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ (ملتان) کے عہدے سے ہٹایا گیا اور انہیں وزارت ریلوے کو رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے جبکہ ان کی جگہ شعیب عادل (چیف ٹریفک منیجر، ڈرائی پورٹ، پی آر ہیڈ کوارٹر) کو ملتان کا ڈی ایس تعینات کردیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ موجودہ وزیر ریلوے شیخ رشید کی وزارت میں یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ریلوے حکام نے غفلت برتنے پر اعلیٰ افسران کے خلاف سخت ایکشن لیا کیونکہ یہ سانحہ کا سبب بنی اور اس کی وجہ سے 74 مسافر جاں بحق ہونے کے ساتھ متعدد زخمی ہوئے جبکہ سرکاری و نجی املاک کو بھی لاکھوں روپے کا نقصان پہنچا۔

مزید پڑھیں: سانحہ تیز گام پر دنیا بھر سے تعزیتی پیغامات

عہدیدار کا مزید کہنا تھا کہ ماضی میں پی آر منیجمنٹ نچلے گریڈ کے ملازمین مثلاً ڈرائیورز، معاون ڈرائیورز، گارڈ وغیرہ کو قصور وار ٹھہراتی تھی۔

ان کے مطابق سنگین انتظامی، آپریشنل اور سیکیورٹی کی غلفت سانحہ تیز گام کا سبب بنی کیونکہ مذکورہ حکام کو اس قسم کے حادثے روکنے کے لیے اقدامات کرنے چاہیے تھے جو بظاہر ان کے فرائض کی انجام دہی میں سنگین غفلت کا شاخسانہ معلوم ہوتے ہیں اور اس حوالے سے موجود متعلقہ قوانین اور اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر (ایس او پیز) کو نظر انداز کیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق آتشزدگی کے باعث منزل کی جانب روانہ کی گئیں 8 ٹرین متعدد ریلوے اسٹیشنز (لیاقت پور، خان پور، رحیم یار خان، کوٹ سیمابا، ترینڈا اور ساہجا) پر 4 سے 7 گھنٹوں تک پھنسی رہیں۔

یہ بھی پڑھیں: وزیر ریلوے نے تیز گام حادثے پر غلطی کا اعتراف کرلیا

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ جو افراد چولہے اور سلینڈر لے کر ٹرین میں سوار ہوئے وہ تو غلطی پر تو تھے ہی لیکن ریلوے حکام بھی اسٹیشن اور ٹرین میں داخل ہونے کے بعد ان کے سامان کی تلاشی نہ لینے کے سبب غفلت برتنے پر قصوروار ہیں۔

عہدیدار کا کہنا تھا کہ ریلوے پولیس، اسٹیشن پر اور ٹرین کے اندر اپنے فرائض انجام دیتی ہے، کنڈیکٹر، گارڈز، ٹکٹ چیکر، اسٹیشن ماسٹر، معاون اسٹیشن ماسٹر اور دیگر ملازمین قانونی اور اخلاقی اعتبار سے اس بات کے پابند ہیں کہ مسافروں کو اس قسم کی اشیا (گیس سلینڈر، چولہے وغیرہ) لے جانے سے منع کریں۔

لہٰذا اگر انہوں نے قواعد و ضوابط کے مطابق اپنے فرائض انجام دیے ہوتے تو اس سانحے کو رونما ہونے سے روکا جاسکتا تھا۔

سانحہ تیز گام

یاد رہے کہ 31 اکتوبر کو کراچی سے راولپنڈی جانے والی تیز گام ایکسپریس میں پنجاب کے ضلع رحیم یار خان کے قریب گیس سلنڈر پھٹنے سے خوفناک آگ لگ گئی تھی، جس کے باعث 74 افراد جاں بحق جبکہ 30 سے زائد مسافر زخمی ہوگئے تھے۔

بدقسمت ٹرین کو حادثہ صبح 6:15 منٹ پر پنجاب کے ضلع رحیم یار خان کی تحصیل لیاقت پور میں چنی گوٹھ کے نزدیک چک نمبر 6 کے تانوری اسٹیشن پر پیش آیا تھا۔

حکام نے بتایا تھا کہ متاثرہ بوگیوں میں سوار مسافر رائیونڈ اجتماع میں شرکت کے لیے جارہے تھے اور آتشزدگی کی لپیٹ میں آنے والی 2 بوگیاں خصوصی طور پر بک کروائی گئی تھیں جن میں زیادہ تر مرد حضرات سوار تھے اور ان کے پاس کھانا بنانے کے لیے سلنڈر بھی موجود تھے۔

عینی شاہدین کے مطابق سلنڈر پھٹنے سے ٹرین میں دھماکا ہوا تھا جس کے آواز سن کر متعدد مسافر تخریب کاری کے خطرے کے پیشِ نظر چلتی ہوئی ٹرین سے کود گئے تھے۔

حادثے کے بعد وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے جاں بحق افراد کے لیے 15 لاکھ روپے اور زخمیوں کے لیے 5 لاکھ روپے معاوضے کا اعلان کردیا تھا۔

وزیر ریلوے نے انکشاف کیا تھا کہ مسافروں کا سامان چیک کرنے کی سہولت صرف بڑے اسٹیشنز پر موجود ہے باقی چھوٹے اسٹیشنز پر مسافروں کے سامان کی تلاشی لینے کا کوئی نظام نہیں۔

اس ضمن میں ڈویژنل کمرشل آفیسر جنید اسلم نے بتایا تھا کہ متاثر ہونے والی 2 بوگیاں اکانومی جبکہ ایک بزنس کوچ تھی اور ایک بوگی امیر حسین جبکہ دوسری تبلیغی جماعت کے نام پر بک کروائی گئی تھی۔

انہوں نے کہا تھا کہ تبلیغی جماعت کے لیے بوگیاں کسی ایک شخص کے نام پر بک کروالی جاتی ہیں اور باقی تفصیلات ان کے امیر کے پاس ہوتی ہیں جس کے باعث تمام مسافروں کی شناخت فراہم نہیں کی جاسکتی البتہ انہوں نے یہ ضرور بتایا تھا کہ ایک بوگی میں 78 جبکہ دوسری بوگی 77 افراد کے لیے بکنگ کروائی گئی تھی۔

تبصرے (1) بند ہیں

Rizwan Nov 05, 2019 09:57am
Good, hope this example will save lives in future. This is completely negligence of railway staff. We cannt expect from Ordinary people to behave as par laws or take care on such things. That’s why we have SOPs and staff to make sure that all safely measures are taken.