قومی کمیشن برائے انسانی حقوق 6 ماہ سے غیر فعال

اپ ڈیٹ 11 نومبر 2019
کمیشن پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر نظر رکھتا ہے —تصویر: فیس بک
کمیشن پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر نظر رکھتا ہے —تصویر: فیس بک

اسلام آباد: حکومت کی عدم توجہ اور ممبران مقرر نہ کیے جانے پر قومی کمیشن برائے انسانی حقوق (این سی ایچ آر) 6 ماہ سے غیر فعال ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیئرمین این سی ایچ آر اور اس کے 7 میں سے 6 اراکین کی ملازمت مدت 30 مئی کو اختتام پذیر ہوگئی تھی جس کے بعد سے تاحال متبادل تعیناتیاں نہیں ہوسکیں۔

خیال رہے کہ انسانی حقوق کمیشن پاکستان، ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر نظر رکھتا ہے اور اس کے پاس از خود نوٹس لینے کا بھی اختیار ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کا نیب سے قیدیوں کی تذلیل نہ کرنے کا مطالبہ

اس حوالے سے وزارت انسانی حقوق کے ڈائریکٹر جنرل محمد ارشد نے امید ظاہر کی کہ ایک ہفتے میں امیدواروں کی فہرست مکمل ہوجائے گی جس کے بعد منظوری کے لیے ان کے نام وزیراعظم کے دفتر بھجوادیے جائیں گے۔

دوسری جانب انسانی حقوق کمیشن کے عملے نے خدشہ ظاہر کیا کہ وزیراعظم عمران خان اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کے مابین اختلافات کے باعث کمیشن شاید فعال نہ ہوسکے۔

خیال رہے کہ پاکستان نے پیرس اصولوں کے تحت این سی ایچ آر قائم کیا تھا جو ملک میں بین الاقوامی معاہدوں اور آئین کے مطابق انسانوں کے حقوق کی حفاظت یا فروغ کے لیے کام کرتا ہے۔

مذکورہ کمیشن حکومت کے بجائے آزاد حیثیت میں کام کرتا ہے اور براہِ راست پارلیمان کو جوابدہ ہے جبکہ کمیشن کی مالیاتی اور کارکردگی رپورٹس بھی سالانہ بنیادوں پر منظوری کے لیے پارلیمان میں پیش کی جاتی ہیں۔

مزید پڑھیں: انسانی حقوق کمیشن کو لاپتہ افراد کی بڑھتی تعداد پر تشویش

اس ضمن میں کمیشن کے ایک سابق رکن نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ امیدواروں کی اسکروٹنی کا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد وزارت انسانی حقوق کی جانب سے چیئرمین کی نامزدگی کے لیے نام وزیراعظم کے دفتر بھجوائے جائیں گے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ کمیشن کے 3 اراکین کے ناموں اور چیئرمین کے عہدے کے لیے وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کا 3 حتمی ناموں پر متفق ہونا ضروری ہے جس کے بعد یہ نام فیصلے کے لیے پارلیمانی کمیٹی بھجوائے جاتے ہیں۔

تاہم اگر وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف ناموں پر اتفاق نہ کرسکیں تو وہ اپنے اپنے نام پارلیمانی کمیٹی کو ارسال کریں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں