رضیہ اقبال انتہائی فخر کے ساتھ اپنے 22 سالہ بیٹے منیب کے بارے میں باتیں کر رہی ہیں، اور فخر کیوں نہ ہو، آخر منیب نے پاکستان کے لیے چاندی اور کانسی کے تمغے جو جیتے ہیں۔

بیٹے کو ملنے والی کامیابیاں تو ہر ماں کے لیے باعثِ مسرت ہوتی ہیں۔ لیکن منیب کوئی عام لڑکا بھی تو نہیں ہے۔ جب وہ ایک ماہ کا تھا تب یہ تصدیق کی گئی کہ وہ ڈاؤن سنڈروم کا شکار ہے، ایک ایسی جنیاتی بیماری جس کے باعث مختلف طبی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور دماغی نمو متاثر ہوتی ہے۔

تاہم اگر ابتدائی مرحلے پر ہی اس مسئلے پر توجہ دی جائے اور تھیراپی کا سہارا لیا جائے تو ڈاؤن سنڈروم کے شکار بچوں کی زندگی ڈرامائی انداز میں بہتر بنائی جاسکتی ہے۔ وہ تھوڑا دیر سے ہی سہی لیکن دیگر عام بچوں کی طرح نمو کے تمام مرحلے عبور کرسکتے ہیں۔ دیگر بچوں کی طرح انہیں بھی یہ سکھایا جاسکتا ہے کہ اپنی طہارت کا خیال کیسے رکھنا ہے اور اپنے مقاصد کو کس طرح حاصل کرنا ہے۔

جب رضیہ کو منیب کی حالت کے بارے میں بتایا گیا تو انہیں جھٹکا لگا کیونکہ منیب کے علاوہ ان کے دیگر 4 بچے پوری طرح سے صحتمند تھے۔ رضیہ کہتی ہیں کہ ’جب منیب کی پیدائش ہوئی تب نہ تو ہمیں ایسے کسی مسئلے کا شبہ ہوا اور نہ ہی ڈاکٹر نے ہمیں ایسی کوئی بات کہی تھی۔ وہ پوری طرح سے صحتمند تھا، لوگ اسے چینی یا جاپانی بچہ پکارا کرتے تھے، شاید اس کی وجہ اس کی چھوٹی آنکھیں اور پھولے ہوئے گال تھے۔ وہ جب ایک ماہ کا ہوا تو اسے نمونیہ ہوگیا تھا۔ ہم اسے ہسپتال لے گئے جہاں ڈاکٹروں نے کچھ ٹیسٹ کرنے کے بعد ہمیں بتایا کہ منیب ڈاؤن سنڈروم سے متاثر ہے۔ ان دنوں ڈاؤن سنڈروم کے بارے میں لوگوں کو زیادہ آگاہی نہیں تھی اور مناسب تھیراپی پروگرامز کا رجحان بھی بہت کم تھا۔‘

مزید پڑھیے: میری بیٹی ڈاؤن سنڈروم سے متاثر ہے اور میں ایک خوش و خرم ماں ہوں

لیکن اس سب کے باوجود رضیہ پُرعزم رہیں اور فیصلہ کیا کہ وہ اپنے بچے کی مدد کے لیے اپنا پورا زور لگائیں گی۔

ڈاؤن سنڈروم ایک جنیاتی مسئلہ ہے جو انسان کے جسم میں کروموزوم 21 کی اضافی کاپی کے باعث پیدا ہوتا ہے۔ جس کی تصدیق عمومی طور پر جسمانی معائنے سے ہی ہوجاتی ہے، کیونکہ ڈاؤن سنڈروم کے شکار افراد کے چہروں پر مخصوص خدوخال نمایاں ہوتے ہیں۔ ان کی آنکھیں اکثر اوپر کی طرف اٹھی ہوتی ہیں، ناک سپاٹ ہوتی ہے جبکہ کان چھوٹے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ زبان باہر کی طرف نکلی ہوتی ہے، انگلیاں چھوٹی اور پوری ہتھیلی پر صرف ایک لکیر موجود ہوتی ہے۔ ان کے پٹھے اور جوڑ ڈھیلے ہوسکتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کا جسم کافی لچکدار بن جاتا ہے۔

لیکن اس کا مطلب یہ نہیں یہ سب ایک جیسے ہی نظر آتے ہیں بلکہ کسی میں یہ صفات کم نمایاں ہوتی ہیں تو کسی میں زیادہ نمایاں نظر آتی ہیں اور وہ اپنی ظاہری شکل و صورت اور مزاج میں اپنے گھر والوں سے بھی ملتے جلتے ہیں۔

آغا خان یونیورسٹی کے شعبہ امراض اطفال سے بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر اور چیئر پرسن منسلک سلمان کرمانی کہتے ہیں کہ ’میڈیکل ٹیکنالوجی میں ہونے والی ترقی کے باعث اب دورانِ حمل ہی الٹراساؤنڈ اور خون کے معائنوں کے ذریعے ڈاؤن سنڈروم کی تشخیص کی جاسکتی ہے اور پیدائش کے بعد کروموزوم کے تجزیے کے لیے خون کا معائنہ کرکے ڈاؤن سنڈروم کی تصدیق کی جاسکتی ہے۔

ڈاؤن سنڈروم کے علاج معالجے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر کرمانی نے بتایا کہ عمر کے ابتدائی حصے میں اس مسئلے پر دھیان دینا ضروری ہے۔ جتنی جلدی ہوسکے اتنی جلدی بچے کی تھیراپی کا آغاز کردیا جائے، بلکہ جب بچے کی عمر 7 دن ہوجائے تب سے ہی تھیراپی شروع کردی جائے۔ آپ یہ ڈاؤن سنڈروم کے مسئلے کو سرے سے تو ختم نہیں کرسکتے البتہ مختلف تھیراپیز سے آپ ان کے معیارِ زندگی میں ڈرامائی انداز میں بہتری ضرور لاسکتے ہیں۔ تھیراپی 3 حصوں پر مشتمل ہے۔ جسمانی تھیراپی، آکوپیشنل تھیراپی اور اسپیچ تھیراپی۔

چونکہ ڈاؤن سنڈروم افراد کو دماغی مسائل کا سامنا ہوتا ہے اس لیے ان کے سیکھنے کا طریقہ دیگر بچوں کے مقابلے میں الگ ہوتا ہے لہٰذا والدین اور اساتذہ کو چاہیے کہ سیکھنے کے عمل میں بچوں کی مطلوبہ ضروریات کو مدِنظر رکھتے ہوئے تربیت فراہم کریں۔

ڈاکٹر کی تجویز کے مطابق، رضیہ گھر پر منیب کی مالش کرنے کے بعد فزیوتھیراپی سیشنز کے لیے لے جاتی تھیں۔ جب منیب 2 برس کا ہوا تب اس نے اسپیچ تھیراپی کا بھی آغاز کردیا۔ رضیہ بتاتی ہیں کہ ’منیب کو ایک کے بعد دوسرے اسکول میں داخلہ دلواتے رہے، پھر اسے ہم نے خصوصی بچوں کے اسکول بھیجنا شروع کردیا جہاں اس نے مختلف جسمانی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ اس نے سوئمنگ میں خاص دلچسپی ظاہر کی لہٰذا اسکول انتظامیہ نے اسے نیشنل گیمز کے لیے نامزد کرلیا جس کے بعد اسے اسپیشل اولمپکس کے لیے چُن لیا گیا‘۔

2013ء میں منیب نے آسٹریلیا میں ہونے والے اولمپکس ایشیا پیسفک گیمز اور 2019ء میں ابوظہبی میں منعقدہ اسپیشل اولمپکس میں حصہ لیا۔ منیب کی کامیابی میں سب سے بڑا کردار ان کی والدہ کا ہی رہا، جنہوں نے اپنے بچے کو (گھروالوں کی معاونت کے ساتھ) ہر ممکن مدد فراہم کی۔

ایک طرف منیب کی پیدائش ایسے وقت میں ہوئی جب ڈاؤن سنڈروم کے بارے میں محدود آگاہی پائی جاتی تھی وہیں دوسری طرف عائشہ نے ان وقتوں میں دنیا میں آنکھ کھولی تھی جب ڈاؤن سنڈروم کے بارے میں آگاہی لوگوں میں عام ہو رہی تھی۔

عائشہ کی والدہ ماریہ حسن کو دورانِ حمل مشکلات کا سامنا ہوا تھا، لیکن عائشہ کی پیدائش کے بعد ابتدائی 2 سال پُرسکون گزرے۔ دورانِ حمل ڈاؤن سنڈروم کے تشخیصی معائنوں کے بعد بھی اس کی تصدیق نہیں ہوپائی تھی۔ لیکن عائشہ کی پیدائش کے بعد 5 سے 10 منٹ کے اندر اندر ڈاکٹر نے خدشہ ظاہر کیا کہ عائشہ ڈاؤن سنڈروم کا شکار ہے۔ پھر چند طبّی معائنوں نے اس کی تصدیق کردی۔

عائشہ کو کمسنی سے ہی مسلسل ڈائیریا، سانس لینے میں تکلیف اور جھٹکنے لینے جیسی مختلف طبّی پیچیدگیوں کا سامنا رہا تھا، لیکن ادویات کے ذریعے ان مسائل پر قابو پالیا جاتا تھا۔ بعدازاں ساڑھے 3 ماہ کی عمر میں ڈاکٹر نے اس کے گھروالوں کو اس کی تھیراپی کروانے کا مشورہ دیا۔

ماریہ بتاتی ہیں کہ ’مجھے عائشہ کی تھیراپی کے لیے کراچی ڈاؤن سنڈروم پروگرام (کے ڈی ایس پی) کے پاس جانے کا مشورہ دیا گیا۔ ہم نے اس کام میں ذرا بھی دیر نہیں کی، اور پھر تھیراپی سے عائشہ کی حالت میں بہتری آنے لگی تھی۔ یوں عائشہ نے دیگر بچوں کے مقابلے میں 2 سے 3 ماہ کی تاخیر سے نمو کے مرحلے عبور کرلیے تھے۔ اس وقت عائشہ کی عمر ڈھائی سال ہے، وہ روزانہ اسکول جاتی ہے اور اس کا ذہن اپنی ڈیڑھ سال بڑی بہن سے بھی زیادہ تیز ہے‘۔

ڈاؤن سنڈروم کے شکار بچوں کو بولنے میں مشکلات کا سامنا بھی ہوسکتا ہے۔ اگرچہ ابتدائی عمر میں بچوں پر توجہ دی جائے تو موٹر اسکلز (دماغ، اعصابی نظام اور پٹھوں کی اکھٹے کام کرنے کی صلاحیت) کو پروان چڑھانے میں مدد مل سکتی ہے لیکن بولنے کی صلاحیت کو بہتر بنانے میں وقت لگتا ہے۔

ماریہ کہتی ہیں کہ ’عائشہ کو لوگوں میں گھلنا ملنا اچھا لگتا ہے، اس نے یہ تو سیکھ لیا ہے کہ جس عمل کے لیے کہا جائے وہ کس طرح انجام دینا ہے لیکن اسے اب بھی دیگر افراد سے رابطہ قائم کرنے میں مشکل کا سامنا ہوتا ہے۔ بولنے کی صلاحیت میں بہتری لانے کے لیے ہم اسے اسپیچ تھیراپی دلوا رہے ہیں‘۔

عائشہ اپنی بڑی بہن کے ساتھ اسپیچ تھیراپی کروانے آتی ہے، اور پھر وہ گھر پر بھی عائشہ کو انہی طریقے کو اپناتے ہوئے کی مدد فراہم کرتی ہے جو اس نے کے ڈی ایس پی میں سیکھے تھے۔

23 سالہ زہرہ بولنے میں درپیش مسائل پر بڑی حد تک قابو پاچکی ہیں۔ ان سے فون پر بات کرتے ہوئے یہ گمان ہی نہیں ہوا کہ وہ ڈاؤن سنڈروم کے ساتھ پیدا ہوئی تھیں۔ ذہین و زندہ دل زہرہ کئی لوگوں کے لیے حوصلہ بخش خاتون ہیں۔ زہرہ اس اعتبار سے بہت خوش قسمت رہیں کہ ان کے والدین انہیں خصوصی تھیراپی کروانے کے لیے برطانیہ لے جانے کی استطاعت رکھتے تھے۔ ان وقتوں میں پاکستان میں اسپیشلائزڈ تھیراپی کی سہولیات موجود نہیں تھی۔ اس وقت وہ خود ڈاؤن سنڈروم کے شکار بچوں کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔

زہرہ کی والدہ شیرین عرفان ہالائی کہتی ہیں کہ ’زہرہ نے عمر کے ابتدائی حصے میں تھیراپی حاصل کرنے کا آغاز کردیا تھا۔ انہیں بولنے میں بہت زیادہ مشکلات درپیش نہیں تھیں کہ وہ ایک دو الفاظ بول پاتی تھیں، ہاں لیکن ان کے لیے ایک پورا ٹھیک جملہ بولنے میں مسئلہ ہوتا تھا۔ زہرہ کو ایسے الفاظ ادا کرنے میں مشکل پیش آیا کرتی تھی جن کے لیے زبان کو موڑنا پڑتا تھا۔ اس مشکل کو دُور کرنے کے لیے ہم نے گھر میں ہی اس پر کام کیا۔ زہرہ نے 3 اور 6 برس کی عمر کے بیچ کچھ تھیراپی حاصل کی تھی۔ زہرہ کی تربیت و رہنمائی ہماری زندگی کا حصہ بن گئی تھی تاکہ اس کی خامیوں کو دُور کیا جاسکے‘۔

زیادہ تر لوگوں کا ماننا ہے کہ ڈاؤن سنڈروم کے شکار بچوں کے لیے علیحدہ خصوصی پروگرامز ہی واحد آپشن ہے۔ تاہم تحقیق یہ ظاہر کرتی ہے کہ دیگر عام بچوں کے ساتھ اسکولوں میں فراہم کیا جانے والا تعلیمی ماحول دماغی، سماجی اور جسمانی نمو کے حوالے سے کافی مددگار ثابت ہوتا ہے۔

مزید پڑھیے: ڈاؤن سنڈروم کی شکار دنیا کی پہلی ’ویدر گرل‘

سائرہ خاور کے ڈی ایس پی سے بطور اسسٹنٹ منیجر برائے آگاہی اور فنڈ ریزنگ منسلک ہیں۔ ان کے مطابق ڈاؤن سنڈروم بچوں کو عام اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنی چاہیے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’اس مقصد کے لیے ہم کے ڈی ایس پی میں آنے والے بچوں کو عام اسکولوں میں داخلہ دلوانے کی کوشش کر رہے ہیں جو ایک بہت ہی مشکل کام ہے۔ ہم نے مختلف اسکولوں کے ساتھ شراکت داری قائم کی ہے اور ان اسکولوں کے اساتذہ کو تربیت بھی فراہم کر رہے ہیں تاکہ ڈاؤن سنڈروم بچوں کی مطلوبہ تعلیمی ضروریات کو پورا کیا جاسکے۔ کیونکہ مناسب ٹریننگ کے بغیر اساتذہ کمرہ جماعت میں بچے کی تعلیمی نمو میں خاطر خواہ کردار ادا نہیں کرپائیں گے‘۔

زہرہ نے 18 ماہ کی عمر میں ہی عام پلے اسکول جانا شروع کردیا تھا اور انہوں نے اپنی تعلیم خصوصی بچوں کے اسکولوں کے بجائے عام اسکولوں میں ہی حاصل کی۔ شرین اس بات پر زور دیتی ہیں کہ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو وہ سب کچھ کرنے دیں جو وہ کرنا چاہتے ہیں اور ہر اس جگہ جانے دیں جہاں وہ جانا چاہتے ہیں۔

’زہرہ نے چند اسکولوں میں انٹرن شپ کی لیکن انہیں کے ڈی ایس پی میں آنے والے بچوں کے ساتھ کام کرنا زیادہ ٹھیک لگا۔ بچوں کو موٹر اسکلز بہتر بنانے میں مدد فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ جب بچے مایوس یا پریشان ہوجاتے ہیں تو وہ انہیں تسلی بھی دیتی ہیں۔ بچے انہیں پسند کرتے ہیں اور جب وہ اردگرد نہیں ہوتیں تو انہیں ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں‘۔

زہرہ خود کو ’گرین پرسن‘ اور ’ماحول دوست‘ کے طور پر بیان کرتی ہیں۔ زہرہ اپنی والدہ کے ’ری سائیکل چیریٹی‘ نامی ریسائیکلنگ منصوبے میں ہاتھ بٹاتی ہیں۔ ان کی والدہ نے 8 برس قبل اس منصوبے کا آغاز کیا تھا۔ زہرہ نے ریسائیکلنگ کی آگاہی پھیلانے کے ساتھ اپنی والدہ کے منصوبے کے لیے کوڑا اکھٹا کرنے کے کام میں بھی حصہ لیا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے بھائی کے ریسٹورینٹ میں بھی ان کی بھرپور مدد کرتی ہیں۔

کے ڈی ایس پی میں بچوں کی تربیت کی جارہی ہے—فوٹو کے ڈی ایس پی
کے ڈی ایس پی میں بچوں کی تربیت کی جارہی ہے—فوٹو کے ڈی ایس پی

ڈاؤن سنڈروم کے شکار بچے بچپن میں حاصل ہونے والے اہداف کو پانے میں کچھ تاخیر کا شکار ہوسکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں کئی طبّی مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے، جیسے سننے اور دیکھنے کے مسائل، قلب کے مسائل، تھائرائیڈ میں خرابی، دماغی معذوری کے علاوہ معدے اور آنت سے جڑے مسائل۔

ڈاکٹر کرمانی کا کہنا ہے کہ ’ان مسائل کا متاثرہ بچے کی ضروریات کے مطابق علاج کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر بچے کو سننے میں مسائل درپیش ہیں تو علاج کی نوعیت کچھ اور ہوگی، اور اگر کسی بچے کو قلب کے مسائل کا سامنا ہے تو اس کا علاج مختلف طریقے سے کیا جائے گا‘۔

شرین نے یہ محسوس کیا ہے کہ عام عوام ڈاؤن سنڈروم کے حوالے سے ہمدردانہ فہم نہیں رکھتے ہیں۔ ہمدردی کی اہمیت بہت زیادہ ہے کیونکہ ان بچوں کو آپ کی ہمدردی چاہیے رحم دلی نہیں۔ ڈاؤن سنڈروم جیسے مسائل کے حوالے سے معاشرے میں فرسودہ خیالات پائے جاتے ہیں۔ مثلاً ہمارے ہاں عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ڈاؤن سنڈروم کے شکار افراد کچھ بھی نہیں کرسکتے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ افراد تقریباً سب کچھ کرسکتے ہیں۔

ہمارے ہاں یہ عام خیال بھی پایا جاتا ہے کہ ڈاؤن سنڈروم کے شکار افراد کی عمر طویل نہیں ہوتی۔ تاہم گزشتہ چند دہائیوں کے دوران ان افراد کی اوسط عمر میں اضافہ ہوا ہے، جو عام طور پر عام آبادی کی اوسط عمر جتنی ہی ہے، یعنی پاکستان میں 66.4 برس، امریکا میں 78.6 برس اور برطانیہ میں 80.9 برس۔

کے ڈی ایس پی کی ویب سائٹ کے مطابق ڈاؤن سنڈروم کے شکار بچوں کی اوسط عمر 1983ء میں 25 برس تھی جو آج 60 برس تک بڑھ پہنچ چکی ہے۔ یہ کہا جاسکتا ہے اس کے پیچھے ڈاؤن سنڈروم سے جڑے طبّی مسائل کی بہتر انداز میں دیکھ بال، نقل و حرکت اور کھانے کی عادات میں بہتری اور اس سے بڑھ کر ڈاؤن سنڈروم کے شکار افراد کو معاشرے میں جگہ دینے کے بجائے انہیں مخصوص دائرے تک محدود کردینے جیسے غیر انسانی سلوک کا خاتمہ کارفرما ہے۔

رضیہ کہتی ہیں کہ ’میں منیب کو اکثر بس میں بٹھا کر فزیوتھیراپی کروانے لے جاتی تھی کیونکہ ان دنوں ہم ٹیکسی کروانے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔ بس میں موجود خواتین اکثر میرے برابر میں بیٹھنے سے کتراتی تھیں یا مجھے کہا کرتی تھیں کہ میں اس پر اپنا وقت اور پیسہ برباد کر رہی ہوں۔ وہ کہتی تھیں کہ ’یہ تو اللہ والے ہیں، اسے مزار پر لے جاؤ۔‘‘

رضیہ کے تجربات سے خصوصی ضروریات کے حامل افراد کی جانب ہمارے معاشرے میں پائے جانے والے جاہلانہ رویوں کا پتا چلتا ہے۔ تاہم، ڈاکٹر کرمانی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ڈاؤن سنڈروم افراد کی ضروریات کو پورا کرنا ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے۔ یہ افراد بے تحاشا صلاحیتوں کے مالک اور انسانوں سے محبت اور ان کی پرواہ کرتے ہیں، یہ لوگ اپنی ان صفات سے ایک خوبصورت معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔


یہ مضمون 10 نومبر 2019ء کو ڈان اخبار کے ایؤس میگزین میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

muhammad kashif Bhatti Nov 22, 2019 03:34pm
well written, ever seen a news like this Madam, keep it up plz