توہین عدالت کیس: غلام سرور اور فردوس عاشق کی معافی قبول، شوکاز نوٹس واپس

اپ ڈیٹ 25 نومبر 2019
دونوں رہنماؤں کو نواز شریف کے فیصلے پر بات کرنے پر نوٹسز جاری ہوئے تھے—فائل فوٹو: ڈان نیوز
دونوں رہنماؤں کو نواز شریف کے فیصلے پر بات کرنے پر نوٹسز جاری ہوئے تھے—فائل فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہین عدالت کیس میں وفاقی وزیر برائے ہوابازی غلام سرور خان اور وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان کی غیر مشروط معافی قبول کرتے ہوئے شوکاز (اظہار وجوہ) کے نوٹس واپس لے لیے۔

وفاقی دارالحکومت کی عدالت عالیہ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے غلام سرور خان اور فردوس عاشق اعوان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کی، جہاں دونوں شخصیات سمیت ان کے وکیل بھی پیش ہوئے۔

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ غلام سرور خان کہاں ہیں؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ساڑھے 10 بجے تک کا وقت ہے، اس پر عدالت نے سماعت کو اس وقت تک ملتوی کیا۔

مزید پڑھیں: فردوس اعوان، چوہدری غلام سرور کے خلاف توہین عدالت کیسز کے فیصلے محفوظ

بعد ازاں جب دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو غلام سرور خان عدالت میں پہنچے۔

اس موقع پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ دونوں بہت ہی ذمہ دار ہیں آپ ریاست کے سب سے اونچے نمائندے ہیں، آپ جب اپنے الفاظ کے ذریعے غلط تشریح کریں گیں تو اداروں سے اعتماد اٹھ جاتا ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ غلام سرور خان کو داد دیتا ہوں کہ انہوں نے کہا کہ بیان سیاسی تھا، ہم یہ نہیں کہتے کہ ہم میں خامیاں نہیں بلکہ ہر جگہ خامی موجود ہے، تاہم سیاسی بیان بازی کی وجہ سے لوگوں کا اعتماد خراب کرنا اچھی بات نہیں ہے۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ سیاست دان لوگوں کا اعتماد سسٹم میں مزید بڑھائیں، سیاسی مخالفت کی وجہ سے اعتماد کو ٹھیس نہ پہنچایا جائے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ تنقید سے ہم گھبراتے نہیں ہیں ہمارے لیے اور بھی چیلنجز موجود ہیں، ساتھ ہی یہ بھی ریمارکس دیے کہ عدالت مطمئن ہے کہ آپ نے جوبھی کہا وہ توہین عدالت میں ضرور آتا ہے، تاہم ہم آپ کو جاری کیے گئے نوٹسز واپس لیتے ہیں۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ سیاست کے لیے اداروں کو متنازع بنانا درست نہیں، توقع رکھتا ہوں آپ عوام پر اداروں کا اعتماد بڑھائیں گے، عدالتیں تنقید سے گھبراتی نہیں ہیں بلکہ خوش آمدید کہتی ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دونوں سائڈز اسی طرح کرتی ہیں کہ فیصلہ خلاف آئے تو ایسے بیانات دیتی ہیں، تاہم توقع ہے کہ آئندہ زیرسماعت مقدمات پر کوئی رائے نہیں دی جائے گی۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ عام سائلین اصل اسٹیک ہولڈر ہیں جو حکومت اور پارلیمان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: نوازشریف کی رہائی سے متعلق بیان پر چوہدری غلام سرور سے جواب طلب

سماعت کے دوران وکیل شاہ خاور نے کہا کہ توہین عدالت کا شوکاز نوٹس واپس لینے پر عدالت کے شکر گزار ہیں، جس پر اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ تفصیلی فیصلہ جاری کروں گا وہ ضرور پڑھ لیجئے گا۔

خیال رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے 14 نومبر کو وفاقی وزیر برائے ہوابازی غلام سرور خان اور وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان کی غیر مشروط معافی پر توہین عدالت کے کیسز کے فیصلے محفوظ کیے تھے۔

توہین عدالت کیسز کا پس منظر

خیال رہے کہ 30 اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے عدلیہ مخالف پریس کانفرنس پر وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے ذاتی حیثیت میں طلب کیا تھا۔

نوٹس میں کہا گیا تھا کہ وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے پریس کانفرنس میں عدلیہ پر تنقید کی اور کہا کہ نواز شریف کو ضمانت دینے کا حکم مختلف بیماریوں کا سامنا کرنے والے قیدیوں کو اسی طرح کی درخواستیں دینے کے لیے راستہ کھولے گا۔

تاہم یکم نومبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہین عدالت کے نوٹس پر فردوس عاشق اعوان کی غیرمشروط معافی قبول کرتے ہوئے انہیں عدالتی کیس پر اثر انداز ہونے پر ایک اور توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا تھا اور ریمارکس دیے تھے کہ عدالت کو مطمئن کریں کہ آپ نے جان بوجھ کر عدلیہ کی تضحیک اور زیر سماعت کیس پر اثرانداز ہونے کی کوشش نہیں کی۔

بعدازاں 5نومبر کو توہین عدالت کے معاملے پر فردوس عاشق اعوان نے عدالت سے ایک مرتبہ پھر غیرمشروط معافی مانگی تھی جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے انہیں تحریری جواب جمع کروانے کا حکم دیا تھا۔

تاہم 3 روز قبل فردوس عاشق اعوان نے عدالتی حکم کے مطابق توہین عدلت کیس میں اپنا تحریری جواب اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرواتے ہوئے ایک بار پھر معافی مانگی تھی۔

مزید پڑھیں: فردوس عاشق کی پرانے نوٹس پر غیرمشروط معافی قبول، توہین عدالت کا نیا نوٹس جاری

اسی روز اسلام آباد ہائی کورٹ نے قائد نواز شریف کی ضمانت کو ڈیل سے جوڑنے کا بیان دینے پر وفاقی وزیر برائے ہوابازی چوہدری غلام سرور خان سے جواب طلب کیا تھا۔

درخواست گزار کے وکیل خالد محمود خان نے غلام سرور خان کے خلاف توہین عدالت کی درخواست جمع کروائی تھی جس میں نجی ٹی وی چینل پر نشر کیے گئے ٹاک شو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ وفاقی وزیر غلام سرور نے نواز شریف کی رہائی کو حکومت اور سابق وزیراعظم کے درمیان ڈیل سے جوڑا تھا۔

دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل ایڈووکیٹ جہانگیر جدون نے کہا تھا کہ غلام سرور خان نے مبینہ ڈیل سے متعلق بیان دیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ جعلی میڈیکل رپورٹ جاری کی جاسکتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں