فیس بک نے اعتراف کیا ہے کہ وہ اس وقت بھی اپنے صارفین کی لوکیشن پر نظر رکھتی ہے جب اس کی جانب سے ٹریکنگ سروسز کو ٹرن آف کردیا جاتا ہے۔

امریکی سینیٹرز کے ایک خط کے جواب میں فیس بک نے بتایا کہ صارفین کا لوکیشن ڈیٹا مختلف مقاصد جیسے اشتہارات دکھانے، نیوز فیڈ پر مواد اور سیفٹی چیک وغیرہ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

فیس بک نے انکشاف کیا ہے کہ اگر صارف کی جانب سے لوکیشن سروسز کو ٹرن آف کردیا جاتا ہے تو بھی اس کی لوکیشن سے متعلق تفصیلات کو ٹریک کیا جاتا ہے اور ایسا آئی پی ایڈریس سے ممکن ہوتا ہے۔

کمپنی کا کہنا تھا کہ ایسے حالات میں مقام کی تفصیلات آئی پی ایڈریس یا دیگر نیٹ ورک انفارمیشن کی مدد سے حاصل کی جاتی ہیں۔

کمپنی نے اعتراف کیا کہ اس طرح کا ڈیٹا کئی بار غلط بھی ہوسکتا ہے، مثال کے طور پر ایک موبائل کو وائرلیس کیرئیر سے ملنے والا آئی پی ایڈریس صرف شہر یا اس علاقے کا بتائے گا جہاں یہ ڈیوائس نیٹ ورک سے کنکٹ ہوئی، جبکہ کسی کمپنی کے نیٹ ورک سے جڑے کمپیوٹر کا آئی پی ایڈریس بزنس آفسز سے منسلک ہوسکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ آئی پی ایڈریسز سے لوکیشن ڈیٹا میں غلطی کا امکان ہوتا ہے۔

مگر کمپنی نے یہ بھی کہا کہ آئی پی ایڈریس سے یہ ضرور اندازہ ہوجاتا ہے کہ صارف کس علاقے یا شہر میں ہے۔

امریکی سینٹر جوش ہیولے کو یہ خط فیس بک کے بانی مارک زکربرگ کی جانب سے 19 نومبر 2019 کو بھیجا گیا تھا۔

خیال رہے کہ فیس بک کو اکثر صارفین کی پرائیویسی کے معاملات پر تنقید کا سامنا رہتا ہے خصوصاً کیمبرج اینالیٹیکا اسکینڈل کے بعد سے اس کے خلاف کئی ممالک میں اقدامات بھی کیے گئے۔

مارک زکربرگ کو امریکا اور یورپی قانون سازوں کے سامنے پیش ہوکر سوالات کا جواب دینا پڑا جبکہ جرمانوں کا بھی سامنا ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں