افغان جنگ کے بارے میں عوام سے جھوٹ نہیں بولا، امریکا

اپ ڈیٹ 21 دسمبر 2019
امریکی عہدیدار نے افغان جنگ سے متعلق خبروں کی تردید کی —فوٹو: اے ایف پی
امریکی عہدیدار نے افغان جنگ سے متعلق خبروں کی تردید کی —فوٹو: اے ایف پی

امریکا کے محکمہ دفاع کے اعلیٰ عہدیدار نے افغانستان میں جنگ سے متعلق حقائق کو عوام سے پوشیدہ رکھنے کی خبروں کی تردید کردی۔

غیر ملکی خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سیکریٹری دفاع مارک ایسپر اور جوائنٹ چیفس چیئرمین جنرل مارک ملے نے ان الزامات کو مسترد کردیا کہ پینٹاگون اور دیگر سرکاری ایجنسیوں نے افغانستان میں جنگی حالات سے متعلق غلط اطلاع دی جبکہ داخلی عہدیدار جنگ کے بارے میں سخت شکوک و شبہات میں مبتلا تھے۔

مزیدپڑھیں: خفیہ سرکاری دستاویزات افشا: 'امریکا، افغانستان میں جنگ ہار رہا ہے'

واضح رہے کہ 10 دستمبر کو ایک امریکی اخبار نے خفیہ سرکاری دستاویزات کا حوالہ دیتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ 'امریکا، افغانستان میں واضح اہداف نہ ہونے کی وجہ سے جنگ ہار رہا ہے'۔

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ 'کچھ امریکی عہدے دار جنگ کے ذریعے افغانستان کو جمہوری ملک بنانا چاہتے ہیں جبکہ بعض چاہتے ہیں کہ افغانستان کی ثقافت کو تبدیل کرکے خواتین کے حقوق کو بلند کیا جائے'۔

اس ضمن میں سیکریٹری دفاع مارک ایسپر نے میڈیا کو بتایا کہ 'یہ بہت شفاف رہا ہے، ایسا نہیں ہے کہ افغان جنگ کہیں خفیہ رکھی گئی تھی'۔

انہوں نے کہا 'افغان جنگ کے تنازع کو دیکھنے والے سبھی لوگوں کے درمیان کچھ مسائل ہیں جو کہ یہ بڑے پیمانے کی سازش ہے جبکہ میرے نزدیک یہ ایک مضحکہ خیز بات ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'مجھے معلوم ہے کہ 18 برس کی جنگ سے متعلق مربوط جھوٹ موجود ہے جو ایک کردار کشی کے مترادف ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: ‘افغان جنگ میں امریکی عوام کی حمایت کیلئے مسلسل جھوٹ بولا گیا‘

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا 'میں جانتا ہوں کہ میں اور بہت سے دیگر لوگوں نے ان حقائق کی بنیاد پر اندازہ کیا تھا جو ہمیں اس وقت معلوم تھے'۔

سیکریٹری دفاع مارک ایسپر نے کہا کہ 'جو مخلصانہ رائے تھی اس کا مقصد کبھی بھی کانگریس یا امریکی عوام کو دھوکا دینا نہیں تھا'۔

واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے واشنگٹن پوسٹ نے "افغانستان کے پیپرز" کے نام سے خبر شائع کی تھی جس میں طالبان گروپ کو شکست دینے اور افغان حکومت کو مضبوط بنانے میں ناکامی پر مشتمل سرکاری دستاویزات تھے۔

علاوہ ازیں جوائنٹ چیفس چیئرمین جنرل مارک ملے نے کہا کہ افغانستان میں قائم اس القاعدہ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں امریکی افواج کامیاب رہی جو 11 ستمبر 2001 کو امریکا پر ہونے والے حملوں میں ملوث تھی۔

انہوں نے کہا 'ہمارا اصل مقصد افغانستان کو ایک مرتبہ پھر دہشت گرد سرگرمیوں سے پاک کرنا ہے جس کے باعث امریکا کو خطرہ لاحق ہے'۔

مزیدپڑھیں: امریکی سیکریٹری دفاع کا افغانستان کا غیر اعلانیہ دورہ

ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ 'یہی کام ہم نے طے کیا اور آج ہم کامیاب رہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم نے بہت پہلے ہی واضح کردیا تھا کہ طالبان یا شورش کے خلاف فوجی فتح کا کوئی عقلی یا معقول موقع نہیں ہوگا'۔

جنرل مارک ملے نے کہا کہ 'سابق صدر بش نے 2001 میں کہا تھا اور یہ آج بھی سچ ہے'۔

واضح رہے کہ ستمبر 2018 میں امریکی جریدے نیویارک ٹائمز نے بھی انکشاف کیا تھا کہ امریکی حکومت افغانستان میں اپنی 17 برس کی جنگ کے حق میں عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے مسلسل ناقص اعداد و شمار پیش کررہی ہے۔

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ’افغان جنگ مہنگی ترین جنگ ثابت ہورہی ہے، موجودہ لگنے والی رقم اس مارشل پلان سے زیادہ ہے جو جنگ عظیم دوئم کے بعد یورپ کو ازسرنو تعمیر کرنے کے لیے درکار تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں