گیس بحران میں اضافے پر حکومت حرکت میں آگئی

اپ ڈیٹ 23 دسمبر 2019
شارٹ فال کی وجہ سے سی این جی سیکٹر کو گزشتہ کئی روز سے سپلائی بند ہے — فائل فوٹو: اےا یف پی
شارٹ فال کی وجہ سے سی این جی سیکٹر کو گزشتہ کئی روز سے سپلائی بند ہے — فائل فوٹو: اےا یف پی

لاہور: ملک بھر میں درجہ حرارت میں کمی کے ساتھ ساتھ گیس کا بحران بھی شدت اختیار کرگیا ہے اور مجموعی شارٹ فال 600 ملین میٹرک کیوبک فیٹ پر ڈے (ایم ایم سی ایف ڈی) تک پہنچ گیا ہے۔

مجموعی شارٹ فال 600 ایم ایم سی ایف ڈی پہنچنے سے سوئی نادرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) اور سوئی سدرن گیس کمپنی (ایس ایس جی سی) گھریلو صارفین کے علاوہ دیگر سیکٹرز میں سپلائی میں کمی لاسکتے ہیں۔

شارٹ فال سے نہ صرف گھریلو صارفین متاثر ہوئے ہیں بلکہ کمپریسڈ نیچرل گیس (سی این جی) سیکٹر کو بھی گزشتہ کئی روز سے سپلائی بند ہے۔

گزشتہ روز سیالکوٹ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیراعظم کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان نے کہا تھا کہ حکومت نے متعلقہ حکام کو گھروں میں گیس کی سپلائی یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے۔

مزید پڑھیں: حکومت نے ملک کے 2 بڑے گیس فیلڈز سے پیداوار روک دی

وفاقی حکومت اور گیس فراہم کرنے والے اداروں نے کئی سالوں سے قدرتی گیس کی مزید دریافت، گیس چوری اور لیکیج معلوم کرنے کے مطلوبہ لیکویفائیڈ نیچرل گیس درآمد کرنے (خاص طور پر سندھ میں) اور ہمیشہ سے بڑھتی طلب میں اضافے کے باوجود صارفین کی جانب سے کمپریسرز کا استعمال روکنے اور ماہرینِ موسمیات کی جانب سے بارہا وارننگز کے باوجود اس حوالے سے کم کوششیں کی ہیں۔

پنجاب اور خیبرپختونخوا میں سوئی نادرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ کو 200 ایم ایم سی ایف ڈی شارٹ فال کا سامنا ہے۔

ایس این جی پی ایل کے سینئر عہدیدار کے مطابق خیبرپختونخوا اور پنجاب کے مختلف سیکٹرز میں گیس چوری اس شارٹ فال کی بڑی وجہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ‘خیبرپختونخوا میں پیدا ہونے والی گیس کے مجموعی حجم کا نصف حصہ گیس فیلڈز کے قریبی علاقوں میں موجود افراد چوری کرلیتے ہیں‘۔

یہ بھی پڑھیں: گیس بحران: وزیراعظم کا گیس کمپنیوں کے سربراہان 'فوری ہٹانے' کا حکم

سینئر عہدیدار نے کہا کہ ’گیس چوری کے لیے ان کے پاس اپنے ذاتی نیٹ ورکس ہیں جو دعویٰ کرتے ہیں کہ گیس ان کے علاقوں سے نکالی جارہی ہے اس لیے ان کا اس پر زیادہ حق ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ہمارے پاس 950 سے 970 ایم ایم سی ایف ڈی گیس موجود ہے، ہمیں سسٹم میں 1020 ایم ایم سی ایف ڈی ریگیسیفائیڈ لیکویفائیڈ نیچرل گیس (آر ایل این جی) بھی موصول ہورہی ہے۔

عہدیدار نے کہا کہ ’طلب میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جس کی وجہ سے پنجاب اور خیبرپختونخوا کے 60 لاکھ گھریلو صارفین کو گیس فراہم کرنے کے لیے ہم صنعتوں اور سی این جی سیکٹر کی سپلائی روکنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔

موسم کی بدلتی صورتحال سے متعلق عہدیدار نے کہا کہ پاکستان، موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا پانچواں ملک ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’ان دنوں سردی کی جس شدت کا ہمیں سامنا ہے وہ بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے تمام صوبوں میں طلب میں اضافہ ہوگیا ہے‘۔

سینئر عہدیدار نے خبردار کیا کہ ’گھریلو صارفین کو 20 فیصد سے زائد گیس فراہم کرنے کے باوجود صورتحال قابو سے باہر ہوتی دکھائی دے رہی ہے‘۔

مزید پڑھیں: ملک میں گیس بحران کی وجوہات

عہدیدار کے مطابق انتہائی کم گیس پریشر کا سامنا کرنے والے علاقوں میں صارفین کی جانب سے بڑے پیمانے پر کمپریسرز کا استعمال بھی شارٹ فال کی ایک اور بڑی وجہ ہے۔

ایس ایس جی سی کے سینئر عہدیدار نے کہا کہ ’ابتدائی طور پر ہم نے سی این جی سیکٹر کو سپلائی روک دی تھی لیکن مسئلہ حل نہیں ہوا تھا‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم نے صنعت سے درخواست کی تھی کہ کم از کم کیپٹو پاور پلانٹ کے گیس کا استعمال روک دیں لیکن انہوں نے ہماری نہیں سنی جس کی وجہ سے ہم گھریلو صارفین کو ریلیف دینے میں بے بس ہوگئے ہیں‘۔

سندھ اور بلوچستان کو گیس فراہمی میں ایس ایس جی سی کو 400 ایم ایم سی ایف ڈی شارٹ فال کا سامنا ہے کیونکہ موجودہ طلب 1500 ایم ایم سی ایف ڈی تک بڑھ گئی ہے۔

چونکہ ایس ایس جی سی سندھ اور بلوچستان میں سوئی کے علاقے میں واقع مختلف گیس فیلڈز سے سسٹم میں آنے والی قدرتی گیس پر انحصار کرتی ہے اس لیے طلب اور رسد کے خلا کو پُر کرنے کے اضافی ایل این جی درآمد نہیں کرتی۔

ایک اور ایس ایس جی سی عہدیدار نے کہا کہ نئی گیس فیلڈز سے گیس نکالنے کے لیے زمین مختص کرنے اور 2 پائپ لائنز بچھانے کے صحیح طریقے کے مسائل موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بحران پر قابو پانے کے لیے متعلقہ حکام سے تعاون طلب کیا جارہا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سوئی سدرن گیس کمپنی بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کے لیے ایل این جی درآمد کرنا چاہتی ہے لیکن وفاقی حکومت اجازت نہیں دے رہی۔


یہ خبر 23 دسمبر 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں