دماغ کا ایسا حیرت انگیز میکنزم جس کا انکشاف پہلی بار ہوا

24 دسمبر 2019
یہ بات ایک تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو
یہ بات ایک تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو

خبردار یہ مضمون موت کے بارے میں ہے اور ہوسکتا ہے کہ آپ اس سے دور رہنا ہی پسند کریں۔

کیونکہ ہمارا دماغ ہمیں ابدی نیند کے خیال سے دور رکھنے کا کام کرتا ہے۔

یہ دعویٰ ایک تحقیق میں سامنے آیا جس میں دریافت کیا گیا کہ دماغ ایسی ڈھال کا کام کرتا ہے جو لوگوں کو موت کے خوف سے دور رکھتا ہے اور وہ دنیا سے چلے جانے کو صرف دوسرے افراد کو پیش آنے والے واقعے کو طور پر دکھاتا ہے۔

جریدے نیورو امیج میں شائع تحقیق میں شامل سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ ہمارا دماغ یہ قبول نہیں کرتا کہ موت سے ہمارا تعلق بھی ہے، یہ ایک بنیادی میکنزم ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ جب دماغ ایسی معلومات کو حاصل کرتا ہے جو اس فرد کی موت کے بارے میں ہوں، تو وہ ہمیں احساس دلاتا ہے کہ یہ قابل اعتبار نہیں اور ہمیں اس پر یقین نہیں کرنا چاہیے۔

موت کے خیالات سے بچانے کا یہ دماغی میکنزم موجودہ لمحے میں زندہ رہنے والوں کے لیے ضروری ہوتا ہے اور تحفظ کا یہ خیال ممکنہ طور پر بچپن سے ہمارے ذہن میں پیدا ہوجاتا ہے۔

سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ وہ لمحہ جب ہمارے اندر اپنے مستقبل کو دیکھنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے، ہمیں احساس ہوتا ہے کہ کسی وقت ہم نے مرجانا ہے اور اس کے بارے میں آپ کچھ نہیں کرسکتے، یہ خیال ہماری حیاتیاتی زندگی کے خلاف ہوتا ہے جو ہمیں زندہ رکھنے میں مدد دیتا ہے۔

اس حوالے سے گہرائی میں جاکر چانچ پرٹال کے لیے سائنسدانوں نے ایک ٹیسٹ تیار کیا جو حیرت کے سگنلز دماغ میں پیدا کرسکتا تھا۔

مختلف رضاکاروں کو اسکرین پر چہرے دکھائے گئے اور اس دوران دماغی سرگرمی کو مانیٹر کیا گیا۔

ان رضاکاروں کے اپنے چہرے یا کسی اور اجنبی کے چہرے کو اسکرین پر کئی بار دکھایا گیا اور ان چہروں کے ساتھ کئی الفاظ بھی لکھے تھے، جن میں سے 50 فیصد کا تعلق موت سے جڑے معاملات جیسے تدفین، آخری رسومات وغیرہ سے تھا۔

سائنسدانوں نے کہا کہ جب کسی فرد کو اپنے چہرے کے ساتھ موت سے متعلق الفاظ لکھے نظر آئے تو دماغ نے اپنا پیشگوئی کرنے والا سسٹم ہی بند کردیا اور اپنی ذات کی موت کے تعلق کو مسترد کردیا جبکہ کسی قسم کے سرپرائز سگنلز بھی ریکارڈ نہیں ہوئے۔

محققین نے کہا کہ اس سے عندیہ ملتا ہے کہ ہماری ذات کو اس خوف سے تحفظ ملتا ہے یا شعوری طور پر یہ خیال کہ ہمیں ایک دن مرنا ہے، مستقبل کی پیشگوئی کرنے والے نظام کو ہی بند کردیتا ہے یا اس معلومات کی ایسی درجہ بندی کرتا ہے کہ وہ اپنی ذات کی بجائے دیگر افراد کے بارے میں لگنے لگتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یقیناً ہم شعوری طور پر یہ تردید نہیں کرتے کہ ہم نے مرنا ہے، مگر ہم یہ سوچتے ہیں کہ یہ اسیا عمل ہے جو دیگر افراد کو پیش آنا ہے۔

یہ دفاع لوگوں کو اپنی زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے خطرات مول لینے میں مدد دیتا ہے کیونکہ اگر موت کا خوف طاری رہے گا تو وہ پھر کچھ بھی نہیں کرسکیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں