نیب ترمیمی آرڈیننس سپریم کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج

سپریم کورٹ کی کراچی رجسٹری میں ترمیمی آرڈیننس کے خلاف درخواست محمود اختر نقوی کی جانب سے دائر کی گئی — فائل فوٹو
سپریم کورٹ کی کراچی رجسٹری میں ترمیمی آرڈیننس کے خلاف درخواست محمود اختر نقوی کی جانب سے دائر کی گئی — فائل فوٹو

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کی جانب سے نیب آرڈیننس میں کی گئی ترامیم کو سپریم کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا گیا۔

سپریم کورٹ کی کراچی رجسٹری میں ترمیمی آرڈیننس کے خلاف درخواست سماجی کارکن اور رہنما محمود اختر نقوی کی جانب سے دائر کی گئی۔

درخواست میں سیکریٹری قانون، سیکریٹری کابینہ، سیکریٹری داخلہ، چیئرمین نیب، ڈی جیز نیب و دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔

درخواست گزار کا کہنا ہے کہ نیب ترمیمی آرڈیننس 2019 مکمل طور پر غیر قانونی اور غیر اسلامی ہے، ترمیمی آرڈیننس آئین کے آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی ہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ وفاقی کابینہ نے نیب ترمیمی آرڈیننس کی منظوری دی، وزارت قانون نے نیب ترمیمی آرڈیننس منظور کرکے سمری وزیر اعظم کو ارسال کی جس کی کابینہ ارکان نے بذریعہ سرکولیشن منظوری دی۔

درخواست گزار نے کہا کہ نیب ترمیمی آرڈیننس کے مطابق محکمانہ نقائص پر سرکاری ملازمین کے خلاف نیب کارروائی نہیں کرے گا، وفاقی وزرا اور دیگر شخصیات کو بچانے کے لیے نیب ترمیمی آرڈیننس کی منظوری دی گئی ہے، نیب آرڈیننس میں ترمیم قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور کروائی جائے۔

لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج

دوسری جانب ایڈووکیٹ اشتیاق چوہدری نے لاہور ہائی کورٹ میں نیب آرڈیننس میں ترمیم کے خلاف درخواست دائر کی جس میں وفاقی حکومت اور دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔

درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ نیب آرڈیننس میں ترمیم آئین کے آرٹیکل 5، 19 اے اور 25 کی خلاف ورزی ہے۔

درخواست میں کہا گیا کہ نیب سے مشتبہ ملزم کا گرفتار کرنے کے خصوصی اختیار واپس لے لیا گیا ہے، تحقیقات سے متعلق اختیارات میں مداخلت کی گئی اور تحقیقات سے قبل ایک نئی پلی بارگین متعارف کروائی گئی ہے جو کہ امتیازی سلوک ہے۔

لاہور ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں کہا گیا کہ قومی احتساب بیورو کے اختیارات محدود کرنے سے کرپشن میں اضافہ ہوگا۔

مزید پڑھیں: حکومت نے آرڈیننس کے ذریعے نیب کے اختیارات میں کمی کردی

درخواست میں کہا گیا کہ نیب آرڈیننس میں انکوائری سے متعلق عوامی سطح پر بیان دینے پر پابندی آئین کے آرٹیکل 19-اے میں دیے گئے ’ بنیادی حق ‘ کے خلاف ہے۔

درخواست گزار نے کہا کہ حالیہ ترامیم متعارف کروا کر بیوروکریسی کو کرپشن کرنے کی چھوٹ دے دی گئی ہے۔

اس میں مزید کہا گیا کہ نیب 50 کروڑ روپے سے کم کرپشن کے خلاف کارروائی نہیں کرسکے جس سے 49 کروڑ روپے کی کرپشن والا بچ جائے گا اور وہ یہی عمل دہرا سکتا ہے اس طرح کرپشن میں اضافہ ہوگا۔

درخواست میں کہا گیا احتساب آرڈیننس کے سیکشن 14 کو ختم کردیا گیا ہے جس کے تحت ملزم کا اثاثہ جات کے ذرائع ثابت کرنے ہوتے تھے۔

اس میں مزید کہا گیا کہ نیب قوانین سے متعلق آرڈیننس امتیازی سلوک کے مترادف ہے۔

درخواست میں لاہور ہائی کورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ عدالت نیب آرڈیننس میں ترمیم پر فوری عملدرآمد روکنے کا حکم دے۔

خیال رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روز کراچی میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ و ملک میں تاجر برادری کا ایک بڑا مسئلہ قومی احتساب بیورو کی مداخلت تھی تاہم آرڈیننس کے ذریعے نیب کو تاجر برادری سے علیحدہ کر دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'نیب کو صرف پبلک آفس ہولڈرز کی اسکروٹنی کرنی چاہیے، نیب تاجر برادری کے لیے بہت بڑی رکاوٹ تھی'۔

نیب آرڈیننس میں کی گئیں کچھ ترامیم کے مطابق پراسیکیوٹر جنرل کی تعیناتی میں چیئرمین نیب کا کردار ختم کردیا گیا، نیب انکوائری اور تحقیقات کے مراحل میں عوامی سطح پر کوئی بیان نہیں دے سکتا۔

ترامیم کے مطابق نیب اب 90 روز تک کسی مشتبہ شخص کو تحویل میں نہیں لے سکتا کیونکہ اس مدت کو کم کرکے 14 روز کردیا گیا ہے جبکہ ماضی میں مشتبہ شخص پر پڑنے والا ثبوتوں کا بوجھ اب پروسیکیوشن پر ڈال دیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: نئے آرڈیننس کے ذریعے نیب کو تاجر برادری سے الگ کردیا، وزیر اعظم

اس کے ساتھ ایک ترمیم کے ذریعے احتساب قانون میں انکوائری کی تکمیل کے لیے 60 ماہ کے عرصے کی مہلت شامل کی گئی ہے جبکہ ایک اور شق کے ذریعے نیب کو پابند کیا گیا ہے کہ ایک مرتبہ کارروائی مکمل ہونے کے بعد قومی احتساب بیورو کسی شکایت پر انکوائری / تحقیقات کا دوبارہ آغاز نہیں کرسکتا۔

بیوروکریٹس کی پروسیکیوشن کے لیے چیئرمین نیب، کابینہ اور اسٹیبلشمنٹ سیکریٹریز، فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے چیئرمین اور سیکیورٹز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان اور ڈویژن برائے قانون و انصاف کے نمائندے پر مشتمل 6 رکنی اسکروٹنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے اور ان کی منظوری کے بغیر نیب کسی سرکاری ملازم کے خلاف انکوائری تحقیقات کا آغاز نہیں کرسکتا نہ ہی انہیں گرفتار کرسکتا ہے۔

علاوہ ازیں ایک اور ترمیم کے ذریعے نیب کو اسکروٹنی کمیٹی کی پیشگی منظوری کے بغیر کسی پبلک آفس ہولڈر کی جائیداد ضبط کرنے سے روک دیا گیا ہے۔

ایک ترمیم کے مطابق ’ متعلقہ حکام یا محکموں کو انکوائریاں اور تحقیقات منتقل کی جائیں گے‘۔

اس کے ساتھ ہی ‘ ٹرائلز کو متعلقہ احتساب عدالتوں سے ٹیکس، لیویز اور محصولات کے متعلقہ قوانین کے تحت نمٹنے والی کرمنل کورٹس میں منتقل کیا جائے گا‘۔

تبصرے (0) بند ہیں