خستہ حال مارگلہ روڈ توجہ کا منتظر

اپ ڈیٹ 01 جنوری 2020
مارگلہ روڈ ان سب سے علیحدہ نہیں کیونکہ اس ایونیو پر کئی اہم دفاعی تنصیبات اور جامعات موجود ہیں، جہاں سے انتہائی رش کے اوقات میں گزرنے کے لیے بہت زیادہ صبر کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔تصویر: محمد عاصمر
مارگلہ روڈ ان سب سے علیحدہ نہیں کیونکہ اس ایونیو پر کئی اہم دفاعی تنصیبات اور جامعات موجود ہیں، جہاں سے انتہائی رش کے اوقات میں گزرنے کے لیے بہت زیادہ صبر کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔تصویر: محمد عاصمر

اسلام آباد: کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) دہائیوں سے وفاقی دارالحکومت کے ماسٹر پلان میں شامل بائی پاس روڈ مارگلہ ایونیو کی تعمیر میں ناکام ہوگئی ہے اور اس منصوبے کی غیر موجودگی میں اسلام آباد کے رہائشی اس کے موجودہ متبادل خیابانِ اقبال میں شدید ٹریفک کا سامنا کرتے ہیں۔

مقامی رہائشیوں میں مارگلہ روڈ کے نام سے مشہور خیابانِ اقبال وفاقی دارالحکومت کے انتہائی معروف راستوں میں سے ایک ہے، جس کی ایک جانب مارگلہ کی پہاڑیاں اور دوسری جانب ایف-سیکٹرز ہیں جن کے لیے یہ بنیادی طور پر ایک سروس روڈ ہے۔

یہ راستہ بنیادی طور پر مجوزہ مارگلہ ایونیو منصوبے کا بوجھ بھی برداشت کرتا ہے جس کا نتیجہ ٹریفک جام خاص طور پر نیول اور پاکستان ایئر فورس (پی اے ایف) کمپلیکسز اور سیونتھ ایونیو کے انٹرسیکشن کے سامنے ٹریفک سگنلز پر طویل انتظار کی صورت میں نکلتا ہے۔

وفاقی دارالحکومت میں مقیم مجتبیٰ علی نے بتایا کہ ’ہمیں روزانہ اس روڈ پر زحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے خاص طور پر دفتر کے اوقات کے دوران ایسا ہونا معمول ہے، موجودہ سڑک ٹریفک کا حجم برداشت کرنے کے لیے ناکافی ہے، سی ڈی اے کو موجودہ ضروریات کے مطابق نئی سڑکیں بنانی چاہئیں‘۔

ایک اور رہائشی محمد کامران نے بتایا کہ علاقے میں کئی تعلیمی اداروں کی وجہ سے مسافروں کو شاہین چوک اور ظفر چوک پر بھی شدید ٹریفک ملتا ہے۔

خیال رہے کہ مارگلہ روڈ پر بحریہ یونیورسٹی، نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی، ایئر یونیورسٹی، بحریہ کالج، پی اے ایف فاؤنڈیشن اسکولز اور دیگر کئی نجی ادارے قائم ہیں، اسی روڈ پر واقع سیکٹرز میں سے ایک 'ایف-8' کی دوسری جانب ڈسٹرکٹ کورٹس قائم ہیں جہاں آنے والے وکلا اور مقدمے کے فریقین بھی یہی راستہ استعمال کرتے ہیں۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 1976 سے قیام پذیر مبارک الہی کا کہنا تھا کہ ’ٹریفک میں اضافے اور عوام میں سڑکوں سے متعلق معلومات نہ ہونے کی وجہ سے اسلام آباد کے کئی بڑے ایونیوز پر سفر کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے‘۔

مبارک الٰہی نے کہا کہ ’مارگلہ روڈ ان سب سے علیحدہ نہیں کیونکہ اس ایونیو پر کئی اہم دفاعی تنصیبات اور جامعات موجود ہیں، جہاں سے انتہائی رش کے اوقات میں گزرنے کے لیے بہت زیادہ صبر کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے‘۔

سی ڈی اے کے عہدیدار نے مارگلہ روڈ پر فیصل ایونیو اور نائنتھ ایونیو کے انٹرسیکشنز کے علاوہ کسی بھی جگہ سنگین ٹریفک جام کی شکایت کو مسترد کردیا اور ساتھ ہی انہوں نے ٹریفک کے مسئلے کو پارکنگ کی خلاف ورزیوں اور روڈ پر واقع تعلیمی اداروں کی تعداد سے جوڑا۔

ایک اور عہدیدار نے کہا کہ 2015 میں نیسپاک کی جانب سے مارگلہ روڈ پر سیونتھ ایونیو اور فیصل ایونیو کے درمیان ٹریفک لوڈ کے تعین کے لیے تحقیق کی گئی تھی جس سے معلوم ہوا کہ جس کے مطابق اس روڈ پر 32 ہزار گاڑیاں موجود تھی، انہوں نے مزید کہا کہ سی ڈی اے کے پاس سیونتھ اور نائنتھ ایونیو انٹرسیکشنز کے درمیان موجود سڑک کے حصے سے متعلق کوئی ڈیٹا موجود نہیں۔

عہدیدار نے مزید کہا کہ ’اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے اس روڈ پر اسمارٹ سگنلز متعارف کروانے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں‘۔

کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے کچھ عہدیداران نے اندازہ لگایا کہ تقریباً گاڑیوں پر 50 ہزار افراد یہ سڑک استعمال کرتے ہیں، انہوں نے نشاندہی کی کہ بڑھتی ہوئے ٹریفک کے مسئلے کو صرف مارگلہ روڈ پر فیصل ایونیو اور نائنتھ ایونیو انٹرسیکشن پر 2 انڈر پاسز کی تعمیر سے حل کیا جاسکتا ہے تاہم سی ڈی اے کی جانب سے فی الحال ان میں سے کسی کی بھی تعمیر کا ارادہ نہیں ہے۔

میئر اسلام آباد شیخ انصر عزیز (جن کا دارالحکومت کے روڈ انفرا اسٹرکچر کی ترقی میں کوئی کردار نہیں) نے کہا کہ یہ مسئلہ انڈر پاسز کی تعمیر سے باآسانی حل کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’میئر ہونے کی حیثیت سے مجھے مارگلہ روڈ کے کچھ مقامات پر ٹریفک جام سے متعلق شکایات موصول ہورہی ہیں جو درحقیقت ایک سروس روڈ ہے‘۔

میئر اسلام آباد نے کہا کہ ’میں اس روڈ کے قریب رہتا ہوں اور میں ذاتی طور پر یہ بات جانتا ہوں کہ تعلیمی اداروں اور گاڑیوں کی تعداد میں اضافے کی وجہ سے اسکول کے اوقات کے دوران روڈ پر شدید ٹریفک ہوتا ہے اور اس مسئلے کو صرف انڈر پاسز کی تعمیر کے ذریعے سے ہی حل کیا جانا چاہیے‘۔

اسلام آباد ٹریفک پولیس کے ترجمان نے کہا کہ اسکول کے اوقات کار میں کچھ علاقوں میں ٹریفک جام ہوتا ہے لیکن پولیس کی جانب سے اسے مؤثر طریقے سے منظم کیا جاتا ہے۔

فراموش کیا گیا ایونیو

مجوزہ مارگلہ ایونیو منصوبہ اس کے شمال میں موجود زون تھری کو جنوب میں واقع زون ون اور ٹو سے تقسیم کرتا ہے۔

اسلام آباد شہر کے ماسٹر پلان کے مطابق مارگلہ ایونیو جی ٹی روڈ سے شروع ہوگا جو مارگلاز کے دامن سے ہوتے ہوئے شاہراہ دستور، اس کے بعد بری امام اور پھر بہارہ کہو کے اسٹاپ پر یہ مری روڈ سے منسلک ہوگا۔

سی ڈی اے نے جی ٹی روڈ سے ڈی-12 تک کے لیے اس ایونیو کی تعمیر کا منصوبہ 7 برس قبل شروع کیا تھا تاہم ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے چند برس بعد یہ کام رک گیا تھا، مذکورہ منصوبہ کسی سروے کے بغیر شروع کیا گیا تھا اور شاہ اللہ دتہ پہنچنے پر صدیوں پرانے قبرستان اور مزار، اس روڈ کے راستے میں حائل ہوگیا۔

سی ڈی اے انجینیئرز نے کہا کہ روڈ کی الائنمنٹ کو منصوبہ مکمل ہونے سے قبل کلیئر کیا جانا چاہیے تھا لیکن اتھارٹی نے عجلت میں منصوبہ شروع کیا اور تاحال 9 کلومیٹر طویل روڈ اس وقت سے لے کر اب تک مکمل نہیں کیا گیا۔

مارگلہ ایونیو کے پی سی ون کے مطابق 58 کروڑ 80 لاکھ روپے لاگت کا منصوبہ 2013 تک مکمل ہونا تھا۔

سی ڈی اے اور منصوبے کے ٹھیکیدار نے مذکورہ معاملے پر عدالت سے رجوع کیا، جہاں ٹھیکیدار اس بنیاد پر معاوضے کا مطالبہ کررہے ہیں کہ یہ کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی غلطی ہے کہ منصوبہ مکمل نہیں کیا جاسکا اور سالوں سے ٹھیکیدار کی مشینری وہاں پھنسی ہوئی ہے۔

ایک عدالتی ثالث نے سی ڈی اے پر 17 کروڑ روپے جرمانہ عائد کیا ہے جسے اتھارٹی نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا۔

سی ڈی اے کی منصوبہ بندی میں شامل اور رہائشی سیکٹرز میں سے 4 سیکٹرز سی-13، 14 ،15 اور 16 اس کے ساتھ ساتھ مکمل سیکٹر ڈی-12 اسی ایونیو پر انحصار کرتے ہیں۔

مارگلہ ایونیو کا ایک اور حصہ بھی تکنیکی طور پر تعمیر کیا گیا ہے، مارگلہ روڈ، سیکٹر ایف-15پر اختتام پذیر ہوتا ہے جہاں سے ایک سیدھی سڑک شاہراہِ دستور تک جاتی ہے۔

سی ڈی اے کے ایک انجینئر نے بتایا کہ ’تکنیکی طور پر مارگلہ ایونیو اسلام آباد کے مختصر حصے میں ایف-5 سے شاہراہ دستور کے درمیان موجود ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ مارگلہ ایونیو کا 2 کلومیٹر طویل حصہ شاہراہ دستور کے شمال میں بری امام کی جانب 90 کی دہائی کے اواخر یا 2000 کے آغاز میں بھی تعمیر کیا گیا تھا تاہم یہ حصہ جو وزیراعظم ہاؤس کے عقب سے گزرتے ہوئے فورتھ ایونیو سے منسلک ہوتا ہے، اسے کارپیٹ نہیں کیا گیا اور اس پر کام روک دیا گیا ہے۔

سی ڈی اے کے عہدیداران نے کہا کہ جب بھی اتھارٹی فیصلہ کرے گی تو ایونیو کا موجودہ حصہ بہارہ کہو جُگی کے اسٹاپ پر مری روڈ سے منسلک کردیا جائے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ سی ڈی اے نے 60 کی دہائی میں ایونیو کے لیے زمین حاصل کی تھی لہذا یہاں زمین کے حصول کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

ایک عہدیدار نے کہا کہ ’ایونیو کی الائنمنٹ میں کچھ تبدیلیوں کے ساتھ اسے خیبرپختونخوا اور ملک کے دیگر حصوں سے آنے والی ٹریفک کو مری اور کشمیر تک براہ راست لِنک فراہم کرنے کے لیے تعمیر کیا جاسکتا ہے‘۔

سی ڈی اے کے چیئرمین امیر علی احمد نے کہا کہ وہ مارگلہ ایونیو کی تعمیر کے لیے مختلف تجاویز پر تبادلہ خیال کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’میں نے متعلقہ ڈائریکٹوریٹ کو سڑک پر جی ٹی روڈ سے ڈی-12 تک کے حصے کا کام بحال کرنے کی ہدایت کردی ہے جہاں ٹھیکیدار اور سی ڈی اے کے درمیان تنازع کی وجہ سے کام روک دیا گیا تھا‘۔

چیئرمین سی ڈی اے نے کہا کہ فوری ریلیف کے لیے کیپٹل ڈیولمپنٹ اتھارٹی ٹریفک کی ابتر صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے مارگلہ روڈ پر سینسر پر مبنی اسمارٹ سگنلز نصب کررہی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ ‘ہم اس بات کا بھی جائزہ لیں گے کہ انڈرپاسز کی ضرورت ہے یا نہیں‘۔

امیر علی احمد نے کہا کہ مستقبل میں یہ ایونیو اسلام آباد کے گرد رنگ روڈ سے منسلک ہوگا جو بہارہ کہو سے شروع ہوکر روات میں اختتام پذیر ہوگا۔

سی ڈی اے میں موجود ذرائع نے کہا کہ مسلح افواج کی تنصیبات کے نزدیک ہونے کی وجہ سے سڑک کے ایک حصے کی ری الائنمنٹ پر غور بھی کیا جارہا ہے۔

ذرائع نے مزید بتایا کہ اسلام آباد کے ماسٹر پلان پر نظرِثانی کے لیے تشکیل دیے گئے کمیشن نے معاملے پر تبادلہ خیال کیا اور اس معاملے کو کنسلٹنٹس پر چھوڑنے کا فیصلہ کیا جو جامع تبدیلیاں لانے کے لیے تعینات کیے جائیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں