مقامی سیاستدانوں سے ملاقات کی اجازت نہ ملنے پر یورپی یونین کا دورہ کشمیر سے انکار

اپ ڈیٹ 10 جنوری 2020
اگست کے بعد سے اب تک غیر ملکی سفرا کا اس ہمالیائی خطے کا یہ پہلا دورہ ہے—تصویر: اے ایف پی
اگست کے بعد سے اب تک غیر ملکی سفرا کا اس ہمالیائی خطے کا یہ پہلا دورہ ہے—تصویر: اے ایف پی

نئی دہلی: یورپی یونین (ای یو) نے مقبوضہ کشمیر کے سفارتی دورہ کرنے سے اس لیے انکار کردیا کیوں کہ اس میں انہیں زیر حراست مقامی سیاستدانوں سے ملاقات کی اجازت نہیں ہوگی۔

غیر ملکی خبررساں اداروں کی رپورٹس کے مطابق گزشتہ برس اگست میں جب مقبوضہ کشمیر کی خود مختار حیثیت ختم کرکے مزید فوج تعینات کردی گئی تھی تو اس کے بعد سے اب تک غیر ملکی سفرا کا اس ہمالیائی خطے کا یہ پہلا دورہ ہے۔

وادی میں جاری لاک ڈاؤن اور مواصلاتی روابط کی بندش جزوی بحالی کے ساتھ اب بھی جاری ہے جس پر برسلز اور واشنگٹن سمیت بین الاقوامی سطح پر تنقید کی گئی تھی۔

بھارتی ٹی وی چینل این ڈی ٹی وی نے ایک یورپی سفارتکار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ’یورپی یونین کے سفیر کشمیر کا گائیڈڈ ٹور نہیں کرنا چاہتے (اور وہ) اپنی مرضی سے آزادانہ طور پر لوگوں سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں‘۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی کانگریس کے رکن نے مقبوضہ کشمیر کے دورے کیلئے ٹرمپ سے مدد مانگ لی

بھارتی اخبار دی ہندو کے مطابق بالخصوص وہ لوگ سابق وزرائے اعلیٰ فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی سے ملنا چاہتے تھے جو اب بھی زیر حراست ہیں جبکہ یہ تینوں افراد سرکاری رہائش گاہ میں گزشتہ 5 ماہ سے نظر بند ہیں۔

اگست کے کریک ڈاؤن میں تاریخی اعتبار سے کشمیر پر غلبہ رکھنے والی 2 سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کے علاوہ سیاسی اور سول سوسائٹی کے سیکڑوں رہنما کو بھی حراست بھی لیا گیا تھا اور یہ سب تاحال قید ہیں۔

مذکورہ حرکت کی عالمی سطح پر تنقید کی گئی تھی جس میں جرمن چانسلر انجیلا مریکل بھی شامل ہیں جنہوں نے نومبر میں دورہ بھارت کے موقع پر کہا تھا کہ وادی میں صورتحال ’ٹھیک نہیں‘۔

ادھر بھارتی وزارت خارجہ کے مطابق امریکا، جنوبی کوریا، نائیجیریا اور ارجنٹینا سمیت 15 ممالک کے سفرا مقبوضہ وادی کے دورے میں شامل ہوں گے۔

مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈاؤن کا 150 واں روز، حملے میں 2 بھارتی فوجی ہلاک

خیال رہے کہ اکتوبر میں بھی 30 یورپی قانون سازوں نے متنازع خطے کا دورہ کیا تھا جس میں زیادہ تر دائیں بازو کی جماعتوں سے تعلق رکھتے تھے تاہم ان کا یہ دورہ سرکاری سطح کا نہیں تھا اور بھارتی حکومت نے اسے نجی اقدام قرار دیا تھا۔

دوسری جانب تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت یہ تاثر دینے کی کوشش کررہی ہے کہ متنازع علاقے میں زندگی معمول کے مطابق ہے۔

واضح رہے کہ اگست میں بھارتی حکومت نے مسلمان اکثریتی آبادی والے اس خطے کو 2 اکائیوں میں تقسیم کردیا تھا جس پر نئی دہلی سے اب براہ راست حکومت کی جارہی ہے اور اُس وقت سے اب تک وادی میں غیر ملکی صحافیوں کو جانے کی اجازت نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر کی تقسیم پر عملدرآمد، سڑکیں صحرا کا منظر پیش کرنے لگیں

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کشمیر کی حیثیت میں تبدیلی کو مقامی معیشت بہتر بنانے اور لاکھوں شہریوں کی ہلاکت کا سبب بننے والے دہائیوں سے جاری تشدد کو ختم کرنے کا اقدام قرار دیا تھا۔

تاہم مقبوضہ کشمیر میں اب بھی انٹرنیٹ تک رسائی انتہائی مشکل ہے اور صرف نصف موبائل فون کام کررہے ہیں، نئی دہلی کا کہنا ہے کہ وہ حریت پسندوں کو روابط سے روکنا چاہتی ہے۔

اس ضمن میں متعدد ممالک کے سفرا کا کہنا تھا کہ انہوں نے وزارت خارجہ سے نجی طور پر وادی میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔


یہ خبر 10 جنوری 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں