بھارت: غریب لڑکیوں کی پناہ گاہ میں جنسی استحصال پر 19 افراد کو سزا

اپ ڈیٹ 21 جنوری 2020
پولیس نے پناہ گاہ کے مالک کو مرکزی ملزم نامزد کیا تھا—فوٹو:بشکریہ بی بی سی
پولیس نے پناہ گاہ کے مالک کو مرکزی ملزم نامزد کیا تھا—فوٹو:بشکریہ بی بی سی

بھارت کی ریاست بہار میں غریب لڑکیوں کے لیے قائم کی گئی پناہ گاہ میں جسمانی اور جنسی استحصال کے کیس میں نامزد 20 ملزمان میں سے 19 کو عدالت نے مجرم قرار دیتے ہوئے 28 جنوری کو سزا سنانے کا اعلان کردیا۔

برطانوی نشریاتی ادارے 'بی بی سی' کی رپورٹ کے مطابق بہار کے شہر مظفر پور میں غریب لڑکیوں کے لیے قائم کی گئی پناہ گاہ میں لڑکیوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور تشدد کی خبریں 2018 میں سامنے آئی تھیں اور اب عدالت نے اس کیس کا فیصلہ سنا دیا ہے۔

عدالت نے فیصلے میں کہا کہ 19 افراد پر جرم ثابت ہوا ہے جن کو سزائیں 28 جنوری کو سنائی جائیں گی۔

رپورٹ کے مطابق پناہ گاہ کے مالک برجیش ٹھاکر بھی مجرمان میں شامل ہیں جبکہ یہ کیس 2018 میں منظر عام پر آیا تھا۔

مزید پڑھیں:بھارت: فیس بک دوست سے ملاقات کیلئے جانے والی نابالغ لڑکی کا گینگ ریپ

پناہ گاہ میں 40 سے زائد لڑکیاں رہائش پذیر تھیں جن کے حوالے سے اطلاعات تھیں کہ اکثر لڑکیوں کو تشدد اور جنسی استحصال کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

پولیس نے 20 افراد کو ملزمان نامزد کیا تھا تاہم عدالت نے ان میں سے ایک ملزم کو بری کردیا۔

پناہ گاہ کے مالک برجیش ٹھاکر کو پولیس نے مرکزی ملزم قرار دیتے ہوئے انہیں اپنی ذمہ داریوں میں غفلت کا مرتکب اور ریپ کا الزام عائد کیا تھا۔

یاد رہے کہ بہار میں غریب لڑکیوں کے ریپ کا کیس 2018 میں ٹاٹا انسٹیٹیوٹ آف سوشل سائنسز کی جانب سے بہار حکومت کو پیش کی گئی ایک رپورٹ کے بعد سامنے آیا تھا جس میں تفصیلات بتائی گئی تھیں۔

ممبئی میں قائم انسٹیٹوٹ کے 8 محققین نے 28 مختلف اضلاع میں 110 پناہ گاہوں کا دورہ کیا تھا جن میں سے 71 میں بچوں کے ساتھ زیادتی کا انکشاف ہوا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:بھارت: سرکاری ہاسٹل کی وارڈن پر کم عمر طالبات کو جنسی ہراساں کرنے کا الزام

خفیہ رکھی گئی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ مظفر پور میں واقع پناہ گاہ میں صورت حال انتہائی خراب ہے اور اس کو انتہائی مشکوک انداز میں چلایا جارہا ہے۔

بہار کی حکومت کی دی گئی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ لڑکیوں نے الزام عائد کیا کہ پناہ گاہ میں ان کا خیال رکھنے والے افراد ان کے کھانے میں نیند کی گولیاں ملاتے تھے اور مالک ٹھاکر کی مدد سے باہر سے مرد ان کے کمروں میں داخل ہوتے تھے اور ریپ کیا جاتا تھا۔

محققین کو ایک لڑکی نے بتایا تھا کہ ‘ہم بہت جلد سو جاتے تھے یا بے ہوش ہوجاتے تھے لیکن اگلی صبح جب اٹھتے تھے تو نیم برہنہ ہوتے تھے اور شدید درد محسوس ہوتا تھا جبکہ ہمارا خیال رکھنے والی خواتین آپس میں کھسر پھسر کر رہی ہوتی تھیں’۔

رپورٹ میں انہوں نے کہا تھا کہ کئی لڑکیوں نے خود کو نقصان پہنچانا شروع کردیا تھا۔

ڈاکٹروں کی جانب سے ٹیسٹ کے بعد کہا گیا تھا کہ 42 میں 34 لڑکیاں نابالغ تھیں اور انہیں ریپ کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

مزید پڑھیں:بھارت: 12 افراد پر طالبہ کے 'گینگ ریپ' کا الزام

بھارت میں جب اس کیس کی تفصیلات سامنے آئی تھیں تو ملکی سطح پر شدید احتجاج شروع ہوا تھا جہاں گزشتہ چند برسوں میں ریپ کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

بھارت کے سرکاری ڈیٹا کے مطابق 2018 میں ہر 15 منٹ بعد ایک خاتون کے ساتھ ریپ کا واقعہ سامنے آیا۔

وزارت داخلہ کی رپورٹ کے مطابق 2018 میں رپورٹ ہوئے 34 ہزار کیسز میں سے 85 فیصد کیسز میں مقدمات درج ہوئے اور 27 فیصد میں جرم ثابت ہوا۔

سرکاری اعداد و شمار میں ریپ متاثرین کی تعداد کم ہوسکتی ہے کیونکہ بھارت کے چند علاقوں میں ریپ کو لڑکی پر کلنک مانا جاتا ہے جبکہ اس کے علاوہ بھارت میں ریپ کے بعد قتل کے واقعے کو صرف قتل کے زمرے میں لیا جاتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں