لاہور کے کینرڈ کالج فار ویمن نے معروف ڈرامے 'میرے پاس تم ہو' کے لکھاری خلیل الرحمٰن قمر کے ساتھ گزشتہ روز بات چیت کا سیشن طالبات کے احتجاج پر منسوخ کردیا۔

ڈان امیجز کے مطابق خلیل الرحمٰن قمر کے ساتھ بات چیت کی تقریب کی منسوخی کی خبر سوشل میڈیا پر پھیلی تھی اور مبینہ طور پر طالبات کی جانب سے انتظامیہ کی توجہ اس جانب مرکوز کرائی گئی تھی کہ خواتین یونیورسٹی میں ایسے فرد کی میزبانی نہیں کی جاسکتی جو خواتین کے حوالے سے مخالفانہ خیالات رکھتا ہو۔

22 جنوری کو یہ تقریب صبح گیارہ سے 12 بجے تک ہونی تھی جس کا انتظام انسٹیٹوٹ سینٹر فار لرننگ اینڈ کلچرل ڈویلپمنٹ نے کیا اور اس میں ایک ڈائریکٹر کو بھی مدعو کیا گیا۔

یونیورسٹی کے ایک فیکلٹی ممبر نے نام چھپانے کی شرط پر اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ طالبات کے احتجاج پر اس ایونٹ کو منسوخ کیا گیا۔

ذرائع کے بقول 'کینرڈ سو برسوں سے خواتین کو آگے لانے کے لیے کام کررہا ہے اور ہم کسی ایسے فرد کی میزبانی ایسے سیشنز میں نہیں کرسکتے جو خواتین کے بارے میں اچھے خیالات نہ رکھتا ہو'۔

اس حوالے سے فی الحال کینرڈ کالج کی جانب سے کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا۔

اس سیشن کا پوسٹر
اس سیشن کا پوسٹر

خیال رہے کہ میرے پاس تم ہو کی مقبولیت تو آسمان کو چھو رہی ہے مگر اس کے مصنف خلیل الرحمٰن قمر کو بھی متنازع بیانات کی وجہ سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

اس ڈرامے کی ا?خری قسط کو نشر ہونے سے رکوانے کے لیے پنجاب کے دارالحکومت لاہور کی خاتون نے عدالت سے رجوع بھی کرلیا۔

لاہور سے تعلق رکھنے والی ماہم جمشید نامی خاتون نے اپنے وکیل کے توسط سے سول کورٹ میں ڈرامے کی آخری قسط کو نشر کرنے سے روکنے سے متعلق درخواست دائر کرتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کہ مذکورہ ڈرامے میں خواتین کی تضحیک کی گئی اور انہیں منفی کردار میں دکھا کر سماج میں خواتین کی غلط عکاسی کرنے کی کوشش کی گئی۔

عدالت کو یہ استدعا بھی کی گئی کہ عدالت ڈرامے کی آخری قسط کو سینما گھروں میں دکھائے جانے کے حوالے سے بھی احکامات جاری کرے۔

اکتوبر 2019 میں انہوں نے ایک انٹرویو میں متنازع بیان دیا تھا کہ 'وہ ہر عورت کو عورت نہیں کہتے، ان کی نظر میں عورت کے پاس ایک خوبصورتی ہے اور وہ اس کی وفا اور حیا ہے، اگر وہ نہیں تو ان کے لیے وہ عورت ہی نہیں'۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ 'اگر خواتین برابری کی بات کرتی ہیں تو وہ بھی مل کر مردوں کا گینگ ریپ کرلیں'، جس پر انہیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں