چین کے ایئرپورٹ میں پھنسے 150 پاکستانیوں کی حکومت سے اپیل

اپ ڈیٹ 01 فروری 2020
پی ایچ ڈی اسکالر نے حکومت سے مدد کی اپیل کی—فوٹو:اسکرین گریب
پی ایچ ڈی اسکالر نے حکومت سے مدد کی اپیل کی—فوٹو:اسکرین گریب

چین میں کورونا وائرس کے پھیلنے کے بعد شمال مغربی خطے سنکیانگ کے ایئرپورٹ میں گزشتہ 4 روز سے پھنسے ہوئے 150پاکستانیوں نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ انہیں وہاں سے نکال کر گھر پہنچایا جائے۔

سنکیانگ ایغور کے خودمختار خطے کے دارالحکومت ارومچی کے ایئرپورٹ میں کئی روز سے پھنسے ہوئے پاکستانیوں میں اکثریت طلبہ اور ان کے اہل خانہ کی ہے اور ان کے ساتھ تاجروں کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہے۔

چین میں پھیلنے والے کورونا وائرس سے اب تک ہلاکتوں کی تعداد 213 سے تجاوز کرگئی ہے اور عالمی ادارہ صحت نے صورت حال کو عالمی سطح پر ایمرجنسی قرار دیا۔

رپورٹ کے مطابق ایئرپورٹ میں پھنسے ہوئے کئی پاکستانی وہاں سے باہر بھی نہیں نکل سکتے کیونکہ ان میں سے کئی کے ویزے کی معیاد ختم ہوچکی ہے اور پاکستانی حکومت کی جانب سے چین کے لیے آنے اور جانے والی تمام پروازیں معطل کیے جانے کے باعث واپس اپنے گھر بھی نہیں آسکتے۔

یہ بھی پڑھیں:کورونا وائرس:پاکستانیوں کو اپنےشہریوں کی طرح سہولت فراہم کررہے ہیں، چینی وزیر خارجہ

چین میں زیر تعلیم خیبرپختونخوا (کے پی) کے ضلع شانگلہ سے تعلق رکھنے والے پی ایچ ڈی اسکالر طارق رؤف نے ڈان کو ایک ویڈیو پیغام بھیجا جس میں انہوں نے کہا کہ ‘ہم سب پاکستانی کمیونٹی ارونچی میں کھڑے ہیں جو مختلف شہروں سے آئے ہوئے ہیں، کوئی دو، تین سے بیٹھے ہیں اور پروازیں بھی معطل ہیں’۔

حکومتی اقدامات سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘یہاں کوئی کہتا ہے کہ پاکستانی حکومت نے پابندی لگا دی ہے اور کوئی کہتا ہے کہ یہاں کی شمالی حکومت نے پابندی لگادی ہے لیکن ہم سب بچوں سمیت پھنس گئے ہیں’۔

A photo posted by Instagram (@instagram) on

دیگر پاکستانیوں کے ہمراہ ریکارڈ ویڈیو میں ان کا کہنا تھا کہ ان میں سے کئی کے ویزے کی معیاد ختم ہوگئی ہے اور انہیں ایئرپورٹ کے اندر رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔

خالد رؤف نے سوال کرتے ہوئے کہا کہ ‘ہم یہاں کب تک بیٹھے رہیں گے’، حالانکہ کئی افراد کے پاس پیسے بھی ختم ہورہے ہیں جبکہ پاکستان کے شہریوں کو ایئرپورٹ کے اندر بینچوں میں سونا پڑ رہا ہے اور کھانے پینے کی اشیا بھی اپنے پیسوں پر خرید رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ‘پاکستان طلبہ اپنی ڈگریاں مکمل کرنے کے بعد واپس آرہے ہیں اور وہ اپنے جامعات میں واپس بھی نہیں جا سکتے کیونکہ ان کے ویزوں کی معیاد ختم ہوچکی ہیں اور وہ جامعات سے اپنے معاملات ختم کرچکے ہیں’۔

مزید پڑھیں:کورونا وائرس سے 213 اموات، عالمی ہنگامی صورتحال قرار دے دیا گیا

ان کا کہنا تھا کہ غیر یقینی کی صورت حال سے ان کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ وہ اپنے چھوٹے بچوں اور بزرگوں کے ساتھ ہیں جبکہ ان میں چند بیمار ہیں۔

خالد رؤف نے کہا کہ ‘ہم پاکستانی حکومت سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ہمیں یہاں سے نکالے اور یہ ہمارا آئینی حق ہے’۔

پی ایچ ڈی اسکالر کے ویڈیو پیغام کے بعد پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے وہاں پھنسے ہوئے پاکستانی سے رابطہ کیا گیا اور انہیں یقین دلایا گیا کہ جب تک وہ چین میں ہیں انہیں ہوٹل کی سہولت فراہم کی جائے گی۔

خالد رؤف کا کہنا تھا کہ ہم اس حوالے سے سفارت خانے کے کسی قدم کے انتظار میں ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:کورونا وائرس: پاکستان نے چین کیلئے پروازیں معطل کردیں

انہوں نے اپنے دوسرے ویڈیو پیغام میں کہا کہ ارومچی کے ایئرپورٹ میں پھنسا ہوا کوئی پاکستانی کورونا وائرس سے متاثر نہیں ہوا اور یہ سب سنکیانگ میں تھے جو وائرس پھیلنے کے مرکز ووہان شہر سے بہت دور ہے۔

خالد رؤف کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکومت وائرس کے حوالے سے ان مسافروں کے ٹیسٹ کے لیے ایک ٹیم بھیج سکتی ہے اور انہیں فوری طور پر وہاں سے نکالنے کی کوششیں کرنی چاہیے۔

واضح رہے کہ چین میں مہلک کورونا وائرس سے اب تک 213 افراد ہلاک جبکہ تقریباً 10 ہزار سے زائد متاثر ہوئے ہیں، اس کے علاوہ امریکا نے اپنے شہریوں کو چین کا سفر نہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔

کورونا وائرس کیا ہے؟

کورونا وائرس ایک عام وائرس ہے جو عموماً میملز (وہ جاندار جو اپنے بچوں کو دودھ پلاتے ہیں) پر مختلف انداز سے اثر انداز ہوتا ہے۔ عموماً گائے، خنزیر اور پرندوں میں نظام انہضام کو متاثر کر کے ڈائیریا یا سانس لینے میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے۔

جبکہ انسانوں میں اس سے صرف نظام تنفس ہی متاثر ہوتا ہے۔ سانس لینے میں تکلیف اور گلے میں شدید سوزش یا خارش کی شکایت ہوتی ہے مگر اس وائرس کی زیادہ تر اقسام مہلک نہیں ہوتیں اور ایشیائی و یورپی ممالک میں تقریباً ہر شہری زندگی میں ایک دفعہ اس وائرس کا شکار ضرور ہوتا ہے۔

کورونا وائرس کی زیادہ تر اقسام زیادہ مہلک نہیں ہوتیں اگرچہ اس کے علاج کے لیے کوئی مخصوص ویکسین یا ڈرگ دستیاب نہیں ہے مگر اس سے اموات کی شرح اب تک بہت کم تھی اور مناسب حفاظتی تدابیر کے ذریعے اس کے پھیلاؤ کو کنٹرول کر لیا جاتا تھا۔

تاہم چین میں پھیلنے والا وائرس 'نوول کورونا وائرس' ہے جو متاثرہ شخص کے ساتھ ہاتھ ملانے یا اسے چھونے، جسم کے ساتھ مس ہونے سے دوسرے لوگوں میں منتقل ہوتا ہے۔

اس کے ساتھ ہی وہ علاقے جہاں یہ وبا پھوٹی ہوئی ہو وہاں رہائشی علاقوں میں در و دیوار، فرش یا فرنیچر وغیرہ کو چھونے سے بھی وائرس کی منتقلی کے امکانات ہوتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں