سندھ ہائیکورٹ نے جامی کو حمید ہارون کے خلاف ہتک آمیز بیانات سے روک دیا

اپ ڈیٹ 05 فروری 2020
حمید ہارون نے اپنے وکیل کے توسط سے سندھ ہائی کورٹ میں ایک ہتک عزت کا کیس دائر کیا تھا —تصویر: سارہ فاروقی/فرحین جاوید
حمید ہارون نے اپنے وکیل کے توسط سے سندھ ہائی کورٹ میں ایک ہتک عزت کا کیس دائر کیا تھا —تصویر: سارہ فاروقی/فرحین جاوید

کراچی: سندھ ہائی کورٹ نے فلمساز جمشید محمود المعروف جامی کو ڈان کے چیف ایگزیکٹو افسر (سی ای او) حمید ہارون کے خلاف ہتک آمیز بیانات دینے سے روک دیا۔

سندھ ہائی کورٹ کے سنگل بینچ میں جسٹس آغا فیصل نے مدعا علیہ (جامی) کو 12 فروری کے لیے نوٹس جاری کیا اور حکم دیا کہ اس عرصے میں وہ مدعی کے خلاف کسی بھی قسم کا ہتک آمیز بیان دینے سے روک دیے گئے ہیں۔

یاد رہے کہ حمید ہارون نے 29 جنوری کو اپنے وکیل کے توسط سے سندھ ہائی کورٹ میں ایک ہتک عزت کا کیس دائر کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ جامی کی جانب سے لگائے گئے الزامات بے بنیاد ہیں اور ساتھ ہی مدعا علیہ کے لیے حکم امتناع مانگا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: حمید ہارون نے جامی کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی

عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ مدعی کے وکیل ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے موقف اختیار کیا کہ مدعا علیہ (جامی) نے میڈیا میں ایک جعلی مہم چلائی جس میں الزام لگایا گیا کہ 13 برس قبل ان کا مبینہ طور پر ریپ کیا گیا تھا جس وقت ان کی عمر شاید 34 برس تھی۔

وکیل کا کہنا تھا کہ بادی النظر میں اس وقت یا اس کے بعد بھی قانون نافذ کرنے والے کسی ادارے میں اس حوالے سے کوئی شکایت نہیں کی گئی۔

وکیل نے مزید کہا کہ جس وقت جامی نے مبینہ ریپ کا براہِ راست الزام حمید ہارون پر نہیں لگایا تھا اس وقت بھی حمید ہارون کے خلاف اور جامی کی حمایت میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔

مزید پڑھیں: ڈان کے سی ای او حمید ہارون نے فلم ساز جامی کو قانونی نوٹس بھیج دیا

حمید ہارون نے مدعا علیہ سے ایک ارب ہرجانے کا مطالبہ بھی کیا اور کہا کہ ’یہ رقم کسی فلاحی ادارے یا (آزادی صحافت سمیت) کسی نیک مقصد کے لیے جو عدالت مناسب سمجھے اور جو شرائط عدالت طے کرے ان کی بنیاد پر استعمال کی جائے گی‘۔

خیال رہے کہ گزشتہ برس اکتوبر میں جامی اس الزام کے ساتھ سامنے آئے تھے کہ 13 برس قبل ایک ’میڈیا ٹائیکون‘ نے ان کا ریپ کیا، بعدازاں 28 دسمبر کو انہوں نے اپنے مبینہ ریپسٹ کے طور پر ڈان کے سی ای او کا نام لیا تھا۔


یہ خبر 5 فروری 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں