ایمنسٹی نے سعودی عرب کی خفیہ عدالت کو ’جبر کا ہتھیار‘ قرار دے دیا

اپ ڈیٹ 07 فروری 2020
جب اس عدالت کو قائم کیا گیا تھا تو یہ صرف القاعدہ کے ملزمان کے مقدمے چلاتی تھی — تصویر: فیس بک ایمنسٹی انٹرنیشنل
جب اس عدالت کو قائم کیا گیا تھا تو یہ صرف القاعدہ کے ملزمان کے مقدمے چلاتی تھی — تصویر: فیس بک ایمنسٹی انٹرنیشنل

دبئی: ایمنسٹی انٹرنیشنل نے سعودی عرب پر الزام عائد کیا ہے کہ دہشت گردی کے مقدمات کی سماعت کے لیے قائم خفیہ عدالت کو پرامن ناقدین، کارکنوں، صحافیوں، علما اور دوسرے مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے افراد کے خلاف 'جبر کے ہتھیار' طور پر استعمال کیا جاتا ہے جس میں سے کچھ کو سزائے موت اور کچھ کو پھانسی بھی دی گئی۔

ڈان اخبار میں شائع ہونے والی امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کی رپورٹ کے مطابق لندن سے تعلق رکھنے والی تنظیم نے اپنی 53 صفحات پر مشتمل رپورٹ کے لیے عدالتی دستاویز کا جائزہ لیا اور ان کارکنان اور وکلا سے بات کی جو خصوصی فوجداری عدالت کی خفیہ سماعتوں پر نظر رکھتے ہیں۔

رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی کہ عدالت میں ہونے والے ٹرائلز انصاف کا مذاق ہیں اور اس کے ججز ان افراد کی آواز دبانے کو تیار ہیں جو بولنے کی ہمت رکھتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب: انسانی حقوق کی رضاکار خواتین کے خلاف مقدمات چلانے کا فیصلہ

2008 میں دہشت گردی سے متعلق جرائم کے لیے قائم کی گئی عدالت نے 2011 میں انسداد دہشت گردی قوانین کے وسیع پیمانے پر شاہ سلمان اور شہزادہ محمد بن سلمان کی توہین کو جرم قرار دیتے ہوئے حکومتی ناقدین پر مقدموں کا آغاز کیا تھا۔

ایمنسٹی کا کہنا تھا کہ ان کارروائیوں میں کچھ الزامات میں سعودی عرب کے حکمرانوں کی نافرمانی، عہدیداروں کی وفاداری پر سوال، مظاہروں کی کال دے کر سیکیورٹی متاثر کرنا اور اکسانا شامل ہیں جبکہ انسانی حقوق کی تنظیموں سے بات کرنے یا سوشل میڈیا استعمال کرنے پر غیر ملکی گروپس کو جھوٹی معلومات کا پرچار کرنے کو جرم سے جوڑا جاسکتا ہے۔

ایمنسٹی مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے ریجنل ڈائریکٹر حبا موریف کا کہنا تھا کہ ’ہماری تحقیق اس نئی اصلاحی اور چمکتی ہوئی تصویر کو جھوٹا کہتی ہے جو سعودی عرب حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے۔

مزید پڑھیں: سعودی عرب: خواتین کے حقوق کیلئے کام کرنے والے مزید 4 کارکن گرفتار

ان کا مزید کہنا تھا کہ سعودی حکومت خصوصی عدالت کو انسداد دہشت گردی قانون سے ناقدین کو خاموش کروانے کے لیے ایک قانونی جواز فراہم کرنے کے لیے استعمال کررہی ہے۔

ایمنسٹی کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کا ’ولی عہد‘ کے ماتحت اصلاحات کا بیان سعودی عرب میں اس حقیقت سے متضاد ہے جہاں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں اور نوجوان شہزادے کے درجنوں ممکنہ ناقدین جیل میں ہیں یا قومی سلامتی کے حوالے سے غیر واضح الزامات کی بنیاد پر مقدمے کا سامنا کررہے ہیں۔

ابتدا میں جب اس عدالت کو قائم کیا گیا تھا تو اس میں صرف القاعدہ کے ملزمان کے مقدمے چلائے جاتے تھے لیکن 2011 کے وسط میں اس میں تبدیلی آئی جب پورے خطے میں عرب بہار کے مظاہرے جاری تھے اور متعلق العنان حکمرانی کے خاتمے کی دھمکیاں دی جارہی تھیں، اس وقت 16 اصلاحات کے حامیوں کو جدہ سے اس عدالت میں بھیجا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب میں انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والی خواتین کارکنان قید

ایمنسٹی نے 2011 سے 2019 کے دوران خصوصی عدالت میں مقدمات کا سامنا کرنے والے 95 افراد کے کیسز کو درج کیا جس میں 68 اہل تشیع تھے جن پر زیادہ تر حکومت مخالف مظاہروں میں شرکت کی وجہ سے مقدمات بنائے گئے بقیہ 27 افراد کو ان کے سیاسی طور پر متحرک ہونے یا اظہاریوں کی وجہ سے مقدمے کا سامنا کرنا پڑا۔

تبصرے (0) بند ہیں