ایک ٹی وی چینل پر خاتون کسی مقابلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہہ رہی تھیں ’ہارنا ایک نظر نہ بھایا‘۔ محاورہ ہے ’ایک آنکھ نہ بھانا‘۔ محاوروں میں تبدیلی نہیں کی جاتی، گوکہ نظر کا تعلق بھی آنکھ ہی سے ہے۔

آنکھ سے متعلق اردو میں بہت سے محاورے رائج ہیں مثلاً ’اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہ آنا، دوسرے کی آنکھ کا تنکا دیکھنا‘، یہ کام عام طور پر سیاست میں ہوتا ہے۔ ’آنکھیں ٹھنڈی ہونا یا کرنا‘، ’آنکھ لڑجانا‘، ’آنکھ بھر آنا‘، ’آنکھ اٹھانا‘، ’آنکھ اٹھا کر نہ دیکھنا‘، ’آنکھیں چرانا‘، ’آنکھیں چار ہونا‘ سمیت آنکھ پر کئی محاورے ہیں۔

مزید پڑھیے: کہا جاتا ہے چین کی چیزیں پائیدار نہیں ہوتیں؟ کیا کورونا کا معاملہ بھی یہی ہے؟

ایک افسوسناک محاورہ ہے ’آنکھوں میں سلائی پھیرنا یا پھرنا‘۔ مغل بادشاہوں کو اپنے کسی عزیز سے خطرہ ہوتا تھا تو خونیں رشتے کا احترام کرتے ہوئے آنکھوں میں گرم سلائی پھروا کر اندھا کردیتے تھے۔ میر تقی میرؔ نے اسی حوالے سے کہا ہے

شہاں کہ کحل جواہر تھی خاکِ پا جن کی

انہی کی آنکھوں میں پھرتی سلائیاں دیکھیں

بہرحال، جب اتنی آنکھیں موجود ہیں تو ’ایک نظر نہ بھایا‘ کہہ کر محاورے سے آنکھیں نہیں چرانی چاہئیں۔

ایک اخبار میں بڑی جلی سرخی میں ایک اور محاورے کا خون کیا گیا ’پول کھل گئی‘۔ پول کھلتی نہیں، کھلتا ہے جیسا کہ ’ڈھول کا پول‘ سے ظاہر ہے۔ پول سے پولا صفت ہے، ہندی کا لفظ ہے اور مطلب ہے اندر سے خالی۔ مونث کے لیے ’پولی‘۔ داغؔ کا شعر ہے

اپنے کوچے میں رکھ سنبھل کے قدم

میرے اشکوں سے زمین پولی ہے

پولا گھاس کے مٹھے کو بھی کہتے ہیں۔ انگریزی کا ’پول‘ الگ ہے جس سے بجلی کے تار لٹک کر راہ گیروں کو ’پولا‘ کردیتے ہیں۔ اس کا ترجمہ ’کھمبا‘ ہے لیکن عموماً انگریزی پول کو ترجیح دی جاتی ہے اور یہ لفظ دیہات میں بھی عام ہوگیا ہے۔ جہاں تک ڈھول کا تعلق ہے وہ فارسی کے دُہل سے بنالیا گیا ہے۔ فارسی میں کہا جاتا ہے ’ببانگ دُہل‘۔ یعنی ’بلند آواز سے‘، ’ڈنکے کی چوٹ پر‘۔ کبھی کبھی بلند آواز سے دل بھی دہل جاتا ہے، جیسا کہ اقبال نے کہا ہے

دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفاں

ایک لفظ ’درستگی‘ اخبارات میں عام ہورہا ہے۔ اس کی جگہ ’درستی‘ استعمال کرنے میں کیا ہرج ہے۔ ’ہراسگی‘ تو پکا ہوگیا ہے۔ ذرا سا غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ’گی‘ ان الفاظ میں لگایا جاتا ہے جن کے آخر میں ’ہ‘ یا الف ہو۔ اس پر شاید پہلے بھی توجہ دلائی تھی، تاہم درستگی کی جگہ درستی سے مفہوم پورا ہوجاتا ہے۔

ایک بڑے ادیب اور متعدد کتابوں کے مصنف جناب ایس ایم معین قریشی نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ’کلثوم‘ مردانہ نام ہے لیکن ہمارے ہاں لڑکیوں کا نام رکھ دیا جاتا ہے، جبکہ عربوں میں لڑکیوں کا نام اُم کلثوم رکھا جاتا ہے۔ ان کی بات آدھی درست ہے۔ کئی صحابہ کرام کا نام کلثوم تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے جن صحابی کے گھر قیام کیا تھا ان کا نام کلثوم تھا جو 2 ہجری میں انتقال کرگئے، اور وہ مدینہ میں جاں بحق ہونے والے پہلے صحابی تھے۔

مزید پڑھیے: آپ ’خواجہ سرا‘ کا مطلب جانتے ہیں؟ اس اصطلاح کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

ان کے علاوہ بھی مردوں میں کلثوم نام کے کئی لوگ ملتے ہیں۔ تاہم عربی کی ایک بڑی اور معتبر لغت میں کلثوم کا مطلب گول چہرے والی، پھولے پھولے کلوں والی دیا گیا ہے۔ گویا مرد اور عورت دونوں یہ نام رکھ سکتے ہیں، تاہم برعظیم کے مسلمان لڑکیوں ہی کا نام کلثوم رکھتے ہیں۔

کلثوم کے علاوہ اور بھی نام ہیں جو عربی میں مردوں کے ہیں اور مذکر ہیں لیکن ہمارے ہاں لڑکیوں کے نام رکھے جاتے ہیں مثلاً ’عطیہ‘۔ یہ نام لڑکیوں کا رکھا جاتا ہے جبکہ اردو میں بھی عطیہ مذکر ہے۔ مثلاً عطیہ ملا، عطیہ دیا گیا، آپ کا عطیہ ہے۔ عربوں میں ایک عام نام ’عیاش‘ ہے جس کا مطلب لمبی زندگی والا، عیش کرنے والا ہے، مگر اردو میں عیاش کو اچھا نہیں سمجھا جاتا، چنانچہ نام رکھنے کا کیا سوال! عربی میں عیاش آرام اور عیش سے زندگی بسر کرنے والا، اور اردو میں تماش بین، اوباش وغیرہ۔ یہ عیاشی عیش کی مرہونِ منت ہے، اور عیش کا مطلب ہے زندگانی۔ فارسی دانوں نے اسے بمعنی خوشی، نشاط استعمال کیا۔ سالک کا شعر ہے

یوں ہی دل غم سے اگر ہجر میں خوگر ہوگا

وصل میں عیش مجھے خاک میسر ہوگا

غالب کا مصرع ہے

بنا ہے عیش تجمل حسیں خاں کے لیے

یہ انہوں نے نواب تجمل کی مدح میں کہا تھا۔ اس پر عیش کا کچھ حصہ غالب کو بھی ملا یا نہیں، اس کا ذکر نہیں ہے۔ عیش پر بھی کئی محاورے ہیں مثلاً ’عیش، آرام حرام کرنا، عیش سے گزارنا‘۔ بہرحال عربی میں اس کے معنی اچھے ہیں۔

ایک لفظ ’ہک دک‘ ہے جسے ہم ہمیشہ ہق، دق پڑھتے اور کہتے رہے، اور کسی نے ہک، دک کہا بھی تو اسے تلفظ کی غلطی سمجھا، لیکن سید مودودی نے قرآن کریم کے ترجمے میں ’یُبلس‘ کا ترجمہ ہک دک کیا ہے۔ (سورہ الروم)

لغت کے مطابق ہک دک ہندی کا لفظ ہے اور مطلب ہے متعجب، حیران، سکتے کے عالم میں۔ ’ہک نہ دک‘ کا مطلب ہے بے سان و گمان، اچانک۔ اردو میں ایک ترکیب عام ہے ’ہکا بکا‘۔ ممکن ہے یہ ہک اسی ہکا سے ہو۔ ہکا بکا کا مطلب ہے متحیر، گھبرایا ہوا، حواس باختہ، متعجب۔ ایک شعر ہے

آئینہ خانے میں کیا آیا نظر

تم تو اے جاں ہکا بکا ہوگئے

ہکا کا ایک مطلب ہے صدمہ جو حریف کو پہنچا کر غلبہ حاصل کریں۔ ہکا بکا اور ہک دک میں متعجب، حیران، سکتے کے عالم میں مشترکہ ہیں۔ سورہ الروم کی آیت نمبر 12 کا ترجمہ ہے ’جب وہ ساعت برپا ہوگی اس دن مجرم ہک دک رہ جائیں گے‘۔

مزید پڑھیے: بنگالی اور مسئلہ ’ج‘ ’ز‘ یا ’ظ‘ کا!

ہمارے صحافی بھائی عموماً ’لاش‘ اور ’نعش‘ میں الجھ جاتے ہیں کہ صحیح کیا ہے، اور کیا ان کے معنوں میں فرق ہے۔ لاش اور نعش میں صرف اتنا فرق ہے کہ ’لاش‘ فارسی کا لفظ ہے اور ’نعش‘ عربی کا۔ مطلب دونوں کا ایک ہی ہے۔ فارسی میں لاش کو لاشہ کہتے ہیں لیکن اردو میں یہ لاش ہی ہے۔ کسی شاعر نے بعد مرگ کفن سے منہ نکال کر کہا تھا ’وہ لے چلے ہیں نعش کو میری کفن کے بدلے اڑھا کے آنچل‘۔ ان کے لیے اس سے اچھی بات اور کیا ہوتی، ورنہ ایک صاحب نے تو یہ فرمایا کہ

ڈال دے سایہ اپنے آنچل کا

ناتواں ہوں کفن بھی ہو ہلکا

بڑی ہلکی بات کی شاعر صاحب نے۔ ذرا خیال تو کیجیے کہ بغیر کفن کے صرف آنچل کا سایہ کیا کیا چھپا سکے گا، اور جس سے آنچل کا سایہ ڈالنے کی فرمائش کی جارہی ہے وہ بھی لاحول پڑھتی ہوئی نکل لے گی۔ شاعر بھی کیسی کیسی فرمائشیں کرتے ہیں اور وہ بھی بعد از مرگ۔ عربی میں نعش تابوت کو کہتے ہیں، اور ایک عربی دان کا دعویٰ ہے کہ نعش تکفین یا کفن دینے سے پہلے نعش کہلاتی ہے۔ اردو میں نعش اور لاش ایک ہی چیز ہیں یعنی میت، مُردے کا جنازہ۔ ایک شاعر اسیر کا شعر ہے

تاقیامت کوئی ایذا نہ ہو اے کنج مزار

بطنِ مادر کی طرح نعش ہماری رکھنا

نعش کی تشہیر پر راسخ کا شعر ہے

بعد کشتن نعش راسخ کی عبث تشہیر کی

ہوگیا بدنام قاتل تو علیٰ ہذا القیاس

بہت بڑے شاعر اور ادیب امجد اسلام امجد کا انٹرویو ٹی وی پر چل رہا تھا اور نیچے پٹی چل رہی تھی جس میں امجد کے لیے ’وسیقہ اعتراف‘ کا اعتراف تھا۔ وسیقہ نیا لفظ ہے۔ اگر یہ ’وثیقہ‘ ہوتا تو ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ بڑا اعزاز ہوتا۔


یہ مضمون ابتدائی طور پر فرائیڈے اسپیشل میں شائع ہوا اور با اجازت یہاں شائع کیا گیا ہے۔


ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں