جرمنی: زیرحراست دائیں بازو گروپ کے اراکین کا مسجد پر حملے کے منصوبے کا انکشاف

اپ ڈیٹ 18 فروری 2020
جرمن پولیس نے 12 افراد کو حراست میں لے لیا—فائل/فوٹو:اے پی
جرمن پولیس نے 12 افراد کو حراست میں لے لیا—فائل/فوٹو:اے پی

جرمنی میں گزشتہ ہفتے گرفتار ہونے والے دائیں بازو کے سخت گیر گروپ کے اراکین سے تفتیش کے دوران انکشاف ہوا ہے کہ نیوزی لینڈ کی مسجد کے طرز پر جرمنی میں مساجد پر حملوں کا ‘چونکا’ دینے والا منصوبہ بنایا گیا تھا۔

غیر ملکی خبر ایجنسی 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق انتظامیہ کا کہنا تھا کہ جرمنی بھر میں پولیس کی کارروائی کے بعد گرفتار ہونے والے 12 افراد سے تفتیش کے بعد بڑے حملوں کی منصوبہ بندی کے اشارے ملے ہیں جس کے حوالے سے میڈیا میں رپورٹس بھی آئی تھیں کہ گروپ کی جانب سے مسلمانوں کو نماز کی ادائیگی کے دوران نشانہ بنایا جائے گا۔

جرمن وزارت داخلہ کے ترجمان بائرن گرینیوالڈر نے برلن میں پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں کو بتایا کہ ‘جو انکشاف ہوا ہے وہ چونکا دینے والا ہے کہ یہاں کئی سیل بنے ہوئے تھے کہ مختصر وقت میں بنیاد پرستی پھیل جائے’۔

مزید پڑھیں:جرمنی میں سیاستدانوں، مسلمانوں پر حملے کا منصوبہ بے نقاب

چانسلر اینجیلا مرکل کے ترجمان اسٹیفن سیبرٹ کا کہنا تھا کہ ‘یہ ریاست اور حکومت کا کام ہے کہ ملک میں بغیر کسی مذہب کی تفریق کے آزاد مذہبی سرگرمیوں کو تحفظ دے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘جرمنی میں ہمارے قانون کے اندر رہتے ہوئے جو کوئی بھی مذہبی سرگرمی کرتا ہے اس کو کوئی دھمکی یا خطرہ نہیں ہونا چاہیے’۔

پولیس کی معطلی

میڈیا رپورٹس ک مطابق انتہا پسند گروپ نے منصوبہ بنایا تھا کہ گزشتہ برس مارچ میں نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی مساجد میں قتل کیے گئے 51 مسلمانوں کے طرز پر سیمی آٹومیٹک ہتھیار استعمال کیے جائیں گے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تفتیش کاروں کو گروپ کے اندر موجود افراد سے منصوبے سے متعلق معلومات تھیں۔

انتہا پسند گروپ کے مبینہ سربراہ کو حکام جانتے تھے اور اس کی ملاقاتوں اور سرگرمیوں پر نظر رکھی جارہی تھی اور گزشتہ ہفتے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اجلاس میں منصوبے پر تفصیلی بات کی تھی۔

جرمنی کے اخبار روزنامہ 'بلد' کے مطابق گروپ کے سربراہ کی عمر 53 برس کے لگ بھگ ہے اور آگسبرگ سے تعلق ہے، تفتیش کاروں کے مطابق ان کا نام وارنر ایس ہے۔

یہ بھی پڑھیں:دنیا بھر میں مساجد پر ہونے والے حملوں پر ایک نظر

تفتیش کاروں کا کہنا تھا کہ 14 فروری کو علی الصبح کارروائیاں شروع کی گئی تھیں تاکہ جائزہ لیا جاسکے کہ مشتبہ افراد کے پاس اسلحہ موجود ہے یا دیگر ذرائع جو حملے میں استعمال ہو سکتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس دن 12 افراد کو حراست میں لیا گیا تھا جن میں سے 4 کے بارے میں یقین تھا کہ وہ گروپ سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ دیگر 8 افراد نے پیسے اور اسلحے کے ذریعے ان کے ساتھ تعاون کا وعدہ کیا تھا۔

شمالی ریاست کے وزیر داخلہ ہربرٹ ریول کا کہنا تھا کہ تمام مشتبہ افراد جرمنی کے شہری ہیں جن میں ایک پولیس افسر بھی شامل ہے جو اس سے قبل دائیں بازو کے سخت گیر گروپ سے تعلقات کے باعث معطل بھی ہوچکے تھے۔

پولیس اہلکار کے حوالے سے جرمن اخبار نے دعویٰ کیا تھا کہ اس کی شناخت تھورسٹن ڈبلیو کے نام سے ہوئی ہے اور ان کی عمر 50 برس ہے اور آئن لائن پیجز پر تلواروں کے ساتھ اپنی تصاویر بھی جاری کرتے ہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق جرمن حکام نے گزشتہ برس جون میں مقامی سیاست دان والٹر لیوبیک کے قتل کے بعد خفیہ طور پر سرگرم دائیں بازو کے انتہاپسندوں پر اپنی توجہ مرکوز کرلی تھی۔

اسی طرح گزشتہ برس اکتوبر میں مشرقی شہر ہالے میں ایک مسلح حملہ آور نے دیسی ساختہ اسلحے کی مدد سے دو افراد کو سرعام قتل کردیا تھا۔

مزید پڑھیں:جرمنی: مسلح شخص کی فائرنگ سے 6 افراد ہلاک

وزارت داخلہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ پولیس نے دائیں بازو کے 50 انتہا پسندوں کو ‘خطرناک’ قرار دیا ہے جو انفرادی طور پر خطرناک حملے کرسکتے ہیں۔

جرمن حکام نے 2019 میں 30 سے زائد افراد کو نیونازی تحریک سے متاثر ‘ناردرن کراس’ سے تعلق پر گرفتار کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں