غفلت برتنے پر نجی ہسپتال کو ایک سے 2 کروڑ روپے دینے پڑیں تو پتہ چلے گا، چیف جسٹس

18 فروری 2020
چیف جسٹس کی سربراہی میں بینچ نے سماعت کی — فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان
چیف جسٹس کی سربراہی میں بینچ نے سماعت کی — فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان

چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیے ہیں کہ نجی ہسپتالوں میں مریضوں کا خیال نہیں رکھا جاتا، ہسپتال کو غفلت برتنے پر 10 سے 20 ملین روپے دینے پڑے تو پتہ چلے گا۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے لاہور کے نجی ہسپتال میں 3 سالہ بچی کی موت سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

اس دوران وفاق کی جانب سے ڈپٹی اٹارنی جنرل اور پنجاب حکومت کی طرف سے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل عدالت میں پیش ہوئے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے امل کیس نمٹادیا، اہلخانہ کو معاوضہ دینے کا حکم

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نجی ہسپتالوں میں مریضوں کا خیال نہیں رکھا جاتا، ڈاکٹرز کی غفلت سے مریض مرجاتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہسپتال کو غفلت پر 10 سے 20 ملین (یعنی ایک سے 2 کروڑ) روپے لواحقین کو دینا پڑے تو پتہ چلے گا۔

ساتھ ہی انہوں نے ریمارکس دیے کہ بغیر پروٹوکول کے کسی نجی ہسپتال میں چلے جائیں تو کوئی نہیں پوچھے گا، (یہ لوگ) لوگوں سے پیسے لیتے ہیں لیکن علاج نہیں کرتے۔

عدالت میں سماعت کے دوران کراچی میں پولیس فائرنگ سے مرنے والی امل عمر کیس کا ذکر کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ امل عمر کا معاملہ بھی بہت سنجیدہ تھا۔

انہوں نے کہا کہ کراچی میں بھی بچی کا کیس تھا لاہور میں بھی بچی کا کیس ہے، اس پر نجی ہسپتال کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ بچی کے ورثا کو نجی ہسپتال نے معاوضہ ادا کردیا ہے۔

اس دوران وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے نمائندوں نے بتایا کہ نجی ہسپتال کو ریگولیٹ کرنے کے لیے قانون سازی کی جارہی ہے، بعد ازاں دونوں حکومتوں کی جانب سے یقین دہانی کرائے جانے کے بعد عدالت نے معاملہ نمٹادیا۔

خیال رہے کہ رواں ماہ کے دوران ہی سپریم کورٹ نے کراچی میں پولیس کی فائرنگ سے جاں بحق ہونے والی بچی امل عمر سے متعلق کیس میں سندھ حکومت کو بچی کے والدین کو 5 لاکھ اور امل ٹرسٹ کو 5 لاکھ روپے معاوضہ ادا کرنے کا حکم دیتے ہوئے کیس نمٹادیا تھا۔

خیال رہے کہ اگست 2018 میں کراچی کے علاقے ڈیفنس میں پولیس اور ڈاکوؤں کے درمیان ہونے والے مبینہ مقابلے کے دوران امل عمر کو گولی لگی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: امل کیس:'سندھ ہیلتھ کمیشن کا غیرقانونی دباؤ ثابت ہوا تو محکمے کو ختم کردیں گے'

بعد ازاں ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) ساؤتھ جاوید عالم اوڈھو نے اعتراف کیا تھا کہ امل عمر کو لگنے والی گولی پولیس اہلکار کی جانب سے فائر کی گئی تھی۔

امل عمر کو گولی لگنے کے بعد ان کے والدین نے انہیں نیشنل میڈیکل سینٹر (این ایم سی) منتقل کیا تھا جہاں طبی امداد دینے سے انکار کیا گیا جس کے بعد وہ دم توڑ گئی تھی۔

مقتولہ کی والدہ بینش عمر نے بتایا تھا کہ ہسپتال انتظامیہ نے بچی کو جناح ہسپتال یا آغا خان ہستپال منتقل کرنے کو کہا تھا اور این ایم سی نے امل کو منتقل کرنے کے لیے ایمبولینس دینے سے بھی انکار کردیا تھا حالانکہ بچی کے سر پر زخم تھے۔

اس واقعے کے بعد اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے مبینہ پولیس مقابلے کے دوران گولی لگنے سے جاں بحق ہونے والی 10 سالہ امل عمر کے واقعے کا ازخود نوٹس لیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں