انسداد دہشت گردی آپریشنز مستقبل کی کارروائیوں کے لیے ماڈل قرار

اپ ڈیٹ 22 فروری 2020
فوج نے آپریشن رد الفساد کا 22 فروری 2017 کو ملک کے پہلے دہشت گردی سے لڑنے کے آپریشن کے طور پر آغاز کیا تھا۔ — اے ایف پی:فائل فوٹو
فوج نے آپریشن رد الفساد کا 22 فروری 2017 کو ملک کے پہلے دہشت گردی سے لڑنے کے آپریشن کے طور پر آغاز کیا تھا۔ — اے ایف پی:فائل فوٹو

اسلام آباد: حکومت نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے شروع کیے گئے پاک فوج کے آپریشن ردالفساد کے 3 سال مکمل ہونے پر اسے انتہا پسندی اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ’کامیاب ماڈل‘ قرار دے دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق آپریشن رد الفساد کے 3 برس مکمل ہونے پر حکومتی عہدیدار کا کہنا تھا کہ 'ملک میں معمولات زندگی بحال ہوگئے ہیں، غیر ملکی سیاح پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں، بین الاقوامی کھیلوں کی تقاریب منعقد ہورہی ہیں جبکہ پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کا پانچواں ایڈیشن بھی پہلی مرتبہ مکمل طور پر پاکستان میں ہی ہورہا ہے'۔

حکام کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف اقدامات کا بین الاقوامی سطح پر اعتراف کیا گیا ہے جہاں برطانیہ اور امریکا نے حال ہی میں اپنی سفری ہدایات میں پاکستان کو بہتر قرار دیا وہیں اقوام متحدہ نے سیکیورٹی کی صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد اسلام آباد کو اپنے اہلکاروں کے لیے فیملی اسٹیشن قراردیا جبکہ برٹش ایئرویز نے بھی پاکستان کے لیے اپنی پروازیں بحال کیں۔

خیال رہے کہ پاک فوج نے آپریشن ردالفساد کا آغاز 22 فروری 2017 ملک بھر میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن کے طور پر کیا تھا۔

ردالفساد کا مقصد دہشت گردی کے مقامی خطرات سے نمٹنا، دہشت گردی کے خلاف لڑائی سے حاصل فوائد کو مستحکم رکھنا اور سرحدوں کی سیکیورٹی کو مضبوط بنانا ہے۔

اس کارروائی کے 4 عناصر، جس میں مسلح افواج کے تمام شعبوں، پیرا ملٹری آرگنائزیشنز، قانون نافذ کرنے والے عوامی اداروں اور انٹیلی جنس تنظیموں نے حصہ لیا تھا اس میں پنجاب میں آپریشنز، ملک کے دیگر حصوں میں آپریشنز، بارڈر منیجمنٹ اور ہتھیاروں کا خاتمہ، دھماکوں پر کنٹرول شامل ہے۔

آپریشن کے اعدادوشمار بتاتے ہوئے ہوئے حکام کا کہنا تھا کہ انٹیلی جنس پر مبنی ایک لاکھ 49 ہزار سے زیادہ کارروائیاں کی گئیں، 3 ہزار8 سو سے زائد انتباہ جاری کیے گئے جبکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے 4 سو کے قریب دہشت گرد حملوں کی وارننگز دی گئیں۔

عہدیدار نے کہا کہ کراچی، جس نے امن و امان کی صورتحال میں بہتری کی وجہ سے کرائم انڈیکس پر اپنی درجہ بندی کو بہتر بنایا ہے، اسے کامیابی کی ایک بڑی کہانی کے طور پر اجاگر کیا گیا۔

اس کے علاوہ بتایا گیا کہ سرحد پار سے دہشت گردوں اور دیگر مجرموں کی غیر مجاز نقل و حرکت کو روکنے کے لیے افغانستان کے ساتھ سرحد پر باڑ لگانے کا آغاز دہشت گردی کے خاتمے کی حکمت عملی کے ایک اہم جزو کے طور پر 2017 کے وسط میں کیا گیا تھا۔

عہدیدار کے مطابق اب تک افغانستان کے ساتھ 2 ہزار 6 سو 11 کلومیٹر طویل سرحد پر ایک ہزار4 سو 50کلومیٹر طویل باڑ نصب کردی گئی ہے جبکہ کُل 8 سو 43سرحدی ٹاورز کی منصوبہ بندی کی گئی تھی جن میں سے 3 سو 43 مکمل ہوچکے ہیں اور مزید ایک سو 61 زیر تعمیر ہیں۔

فوجی عدالتیں جو ابتدائی طور پر سانحہ آرمی پبلک اسکول کے مشتبہ دہشت گردوں کے مقدمے کی سماعت کے بعد نیشنل ایکشن پلان کے تحت قائم کی گئیں تھیں، وہ گزشتہ سال اس لیے ختم ہوگئیں تھیں کیونکہ سیاسی اتفاق رائے کی کمی کی وجہ سے حکومت اس کی قانون سازی کی تجدید میں ناکام ہوگئی تھی۔

عہدیدار نے بتایا کہ فوجی ٹریبیونلز نے 3 سو 44 دہشت گردوں کو سزائے موت سنائی جبکہ مزید 3 سو ایک کو قید کی مختلف سزائیں سنائی گئیں اور اس دوران دیگر 5 افراد کو بری کردیا گیا۔

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز کے ڈائریکٹر عامر رانا نے کہا کہ حکومت کو انسداد دہشت گردی کی کوششوں پر مزید توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں