پارہ چنار کا علاقہ فرقہ وارانہ دہشت گردی سے متاثر چلا آرہا ہے، فوجی چوکیوں کے قیام کے باوجود دہشت گردوں کی کارروائیاں جاری رہتی ہیں، رواں سال 29 اپرایل کو پارہ چنار میں ایک بم دھماکے کے بعد کا ایک منظر—فائل فوٹو
پارہ چنار کا علاقہ فرقہ وارانہ دہشت گردی سے متاثر چلا آرہا ہے، فوجی چوکیوں کے قیام کے باوجود دہشت گردوں کی کارروائیاں جاری رہتی ہیں، رواں سال 29 اپرایل کو پارہ چنار میں ایک بم دھماکے کے بعد کا ایک منظر—فائل فوٹو

کرم ایجنسی: پاکستان کے قبائلی علاقے کرم ایجنسی میں واقع پارہ چنار کے مرکزی بازار اور ایک ٹیکسی اسٹینڈ پر کل بروز جمعہ 26 جولائی کی شام کو ہوئے دو بم دھماکوں کے نتیجے میں ہلاک ہونے  والوں کی تعداد اب 57 ہوگئی ہے، حکام اور مقامی لوگوں کے مطابق اس واقعہ میں تقریباً 167 افراد زخمی ہوئے ہیں۔

پولیٹیکل ایجنٹ ریاض محسود کا کہنا ہے کہ ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے، کیونکہ زخمیوں میں سے بعض  کی حالت انتہائی تشویشناک ہے۔

انہوں نے کہا کہ شدید زخمی افراد کو پشاور اور دوسرے شہروں کے ہسپتالوں میں منتقل کرنے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پہلا دھماکہ خودکش تھا، جبکہ دوسرا پلانٹڈ ڈیوائس کے ذریعے کیا گیا۔

آس پاس موجود علاقے کے رہائشیوں نے بتایا کہ دونوں دھماکے افطار سے دو گھنٹے پہلے صرف چند سیکنڈ کے وقفے سے کیے گئے۔

انہوں مزید بتایا کہ پہلا دھماکہ مرکزی چوک پر ایک مسجد کے قریب ہوا، جہاں لوگوں کی ایک بڑی تعداد غذائی اشیاء کی خریداری میں مصروف تھی، جبکہ دوسرا دھماکہ اسکول روڈ پر واقع ٹیکسی اسٹینڈ پر کیا گیا، جس سے متعدد دکانوں اور گاڑیوں کو نقصان پہنچا۔

انجمن حسینیہ کے ایک عہدیدارد وزیر علی نے بتایا کہ دھماکے بعد انسانی اعضاء اور خون مسجد کے قریب  پھیل گیا تھا۔

دھماکوں کے بعد ایجنسی ہیڈکوارٹر ہسپتال میں ایمرجنسی کی صورتحال نافذ کردی گئی تھی، یہ اس علاقے میں واحد صحت کا مرکز ہے۔ یہاں جگہ کم  ہونے کی وجہ سے شدید زخمیوں کو ہسپتال کی اوُپری منزل میں لیے جایا گیا، ہسپتال میں بیڈز دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے لوگ زخمیوں کے لیے گھروں سے چارپائیاں بھی لے کر آرہے تھے۔

ایک ڈاکٹر عبداللہ جان نے کہا کہ سو سے زائد زخمی ایجنسی ہیڈکواٹرہسپتال لائے گئے جن میں سے اکثر شدید زخمی افراد کو کوہاٹ اور پشاور کے ہسپتالوں میں منتقل کردیا جبکہ 25 زخمیوں کو ایجنسی ہیڈکوارٹر ہسپتال میں داخل کرلیا گیا ہے۔

زخمیوں کو دوسرے علاقوں میں نجی گاڑیوں کے ذریعے پہنچایا گیا۔

گورنر خیبر پختونخوا انجینئر شوکت اللہ خان نے دھماکوں کی مذمت کرتے ہوئے کمشنر کوہاٹ اور صحت کے صوبائی ڈائریکٹر جنرل کو تمام متاثرین کے لیے بہترین طبی سہولیات فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے۔

پارہ چنار صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور سے 250 کلومیڑ دور مغرب میں واقع ہے اور اس علاقے کی کل آبادی تقریباً پچاس ہزار ہے۔

یاد رہے کہ 2007ء میں اس علاقے ہونے والی فرقہ ورانہ جھڑپوں کے بعد سے فوج اور نیم فوجی دستوں نے اس علاقے کی سڑکوں پر چوکیاں قائم کی تھیں۔

اس سے قبل کرم ایجنسی میں کھار پٹی کے علاقے منگاگ میں ایک بس کے بارودی سرنگ سے ٹکرانے سے دو افراد ہلاک اور چھ زخمی ہوگئے، یہ بس پارہ چنار جا رہی تھی۔

اس واقعہ میں ہلاک ہونے والوں کی شناخت ناصر حسین طوری اور خیر علی کے نام سے ہوئی ہے جو موقع پر ہی ہلاک ہوگئے تھے۔

جبکہ زخمیوں میں مشاہد حسین، افسر علی، جمیل حسین، انتظار حسین، عنایت علی، اور مسرت حسین شامل ہیں، جن کو پارہ چنار میں واقع ایجنسی ہیڈکوارٹر ہسپتال منتقل کردیا گیا، تاہم زخمیوں میں سے دو کی حالت تشویشناک بتائی جاری ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (4) بند ہیں

Israr Muhammad Khan Jul 26, 2013 06:46pm
هم اس ظالمانہ حملوں کی مزمت کرتے هیں اور تمام فریقین سے ان سلسلوں کو ختم کرنے کی اپیل کرتے هیں اس قسم کے حملوں سے سوائے قتل وغارت کچھ حاصل نہیں هوسکتا
‘ڈرون مخالف گروپ پاراچنار دھماکوں کا ذمہ دار’ | Dawn Urdu Jul 27, 2013 12:52pm
[…] المجاہدین نامی ایک نئے عسکریت پسند گروپ نے جمعہ کو پاراچنار میں ہونے والے دو دھماکوں کی ذمہ داری قبول کر لی […]
‘ڈرون مخالف گروپ پاراچنار دھماکوں کا ذمہ دار’ Jul 27, 2013 04:12pm
[…] المجاہدین نامی ایک نئے عسکریت پسند گروپ نے جمعہ کو پاراچنار میں ہونے والے دو دھماکوں کی ذمہ داری قبول کر لی […]
sattar ali Jul 28, 2013 08:40am
پاراچنار میں عام تاثر یہ ہے کہ پاراچنار میں ہونے والے تمام دھماکوں مین پاکستانی ایجنسیاں ملوث ہیں۔ جو پاراچنار میں امن وامان کا مسئلہ اور انارکی پھیلاکر اس علاقے کو طالبانکے لئے خالی کرنا چاہتے ہیں۔ انکا ارادہ ہے کہ افغانستان سے امریکی افواج چلے جانے کے بعد افغانستان میں کرم ایجنسی کی سرزمیں کو ہی استعمال کیاجائے۔ جبکہ اس بات کے کئی گواہ بھی موجود ہیں کہ پاراچنار میں ائی ایس ائی ہی کی گاڑیوں میں مشکوک لوگوں کو پھیرایا جاتا ہے۔ جنکی کوئی تلاشی نہیں لی جاتی۔