اسرائیل نے انتخابات سے 4 روز قبل نئی آبادکاری منظور کرلی

اپ ڈیٹ 28 فروری 2020
دائیں باوز کے اسرائیلی وزیر دفاع نے تل ابیب کے مذکورہ فیصلے سے متعلق آگاہ کیا —فائل فوٹو: اے ایف پی
دائیں باوز کے اسرائیلی وزیر دفاع نے تل ابیب کے مذکورہ فیصلے سے متعلق آگاہ کیا —فائل فوٹو: اے ایف پی

اسرائیل نے انتخابات سے محض چند روز قبل مقبوضہ مغربی کنارے میں ایک ہزار 800 گھروں کی آبادکاری کا منصوبہ منظور کرلیا۔

دائیں باوز کے اسرائیلی وزیر دفاع نے تل ابیب کے مذکورہ فیصلے سے متعلق آگاہ کیا۔

مزید پڑھیں: قابض علاقوں میں اسرائیلی آباد کاری بین الاقوامی قوانین کے مطابق ہے، امریکا

وزارت نے اپنے بیان میں کہا کہ وزیر دفاع نافتالی بینیٹ کی تجویز کے مطابق 'پلاننگ کی ایک کمیٹی نے 18 سو گھروں کی تعمیر کی منظوری دی ہے'۔

خیال رہے کہ اسرائیل کے طویل ترین عرصے تک وزیر اعظم رہنے والے بینجمن نیتن یاہو نے اسرائیل پر اپنی حاکمیت برقرار رکھنے کے لیے حالیہ دنوں میں کئی اعلانات کیے ہیں۔

وزیر دفاع نے کہا کہ 'ہم انتظار نہیں بلکہ عمل کریں گے، ہم اسرائیل کی ایک انچ زمین بھی عربوں کو نہیں دیں گے'۔

مقبوضہ مغربی کنارے میں آباد کاری کی مخالف غیر سرکاری تنظیم (این جی او) 'پیس ناؤ' نے بتایا کہ مجموعی طور پر ایک ہزار 739 گھروں کو مختص کیا گیا تھا جن میں سے 92 فیصد مغربی کنارے کے اندورنی حصے میں ہیں۔

این جی او کے مطابق پہلے بڑے مرحلے میں ایک ہزار 36 گھر پھر دوسرے مرحلے میں 703 گھروں کی منظوری دی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: اسرائیل نے انتخابات سے 2 روز قبل نئی آبادکاریاں منظور کرلیں

علاوہ ازیں انہوں نے بتایا کہ قلقیلیہ کے قریب ایک نئے صنعتی پارک کی بنیاد بھی رکھی جائے گی۔

مغربی کنارے کے آباد کاروں کی نمائندگی کرنے والی تنظیم 'یشا کونسل' نے اسرائیلی فیصلے کو سراہا ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ برس نومبر میں امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے فلسطین کے قابض علاقوں میں امریکا کی اسرائیل کے حوالے سے پالیسی تبدیل کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل کی قابض علاقوں میں آباد کاری بین الاقوامی قوانین کے مطابق ہے۔

واضح رہے کہ مائیک پومپیو کا بیان 1978 میں امریکی صدر جمی کارٹر کی جانب سے اسرائیلی آباد کاری کے حوالے سے اپنائی گئی پوزیشن کے متضاد ہے۔

مزید پڑھیں: سعودی ولی عہد کی اسرائیلی وزیراعظم سے متوقع ملاقات کی تردید

مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ 'آباد کاری کو غیر قانونی کے طور پر دیکھنے کا کوئی فائدہ نہیں، امریکا آباد کاری کے حوالے سے اسرائیلی عدالت کے فیصلوں سے اتفاق کرتا ہے'۔

دوسری جانب اقوام متحدہ اسرائیلی آباد کاری عالمی قوانین کی خلاف ورزی گردانتا ہے۔

خیال ر ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس سے قبل بھی اسرائیل کی حمایت میں اقدامات کیے ہیں جن میں 2017 میں یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا، 2018 میں امریکی سفارتخانے کی یروشلم منتقلی اور فلسطین کو ملنے والی امریکی امداد روکنا شامل ہے۔

گزشتہ برس مارچ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کے 1967 میں شام سے قبضہ کیے گئے گولان ہائیٹس کو باضابطہ طور پر تسلیم کرتے ہوئے اس حوالے سے دستاویزات پر دستخط کر دیے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں