قابض علاقوں میں اسرائیلی آباد کاری بین الاقوامی قوانین کے مطابق ہے، امریکا

اپ ڈیٹ 20 نومبر 2019
مقبوضہ مغربی کنارے پر اسرائیلی آباد کاریاں — فائل فوٹو/اے ایف پی
مقبوضہ مغربی کنارے پر اسرائیلی آباد کاریاں — فائل فوٹو/اے ایف پی

امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے فلسطین کے قابض علاقوں میں امریکا کی اسرائیل کے حوالے سے پالیسی تبدیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کی قابض علاقوں میں آباد کاری بین الاقوامی قوانین کے مطابق ہے۔

واضح رہے کہ مائیک پومپیو کا بیان 1978 میں امریکی صدر جمی کارٹر کی جانب سے اسرائیلی آباد کاری کے حوالے سے اپنائی گئی پوزیشن کے متضاد ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ 'آباد کاری کو غیر قانونی کے طور پر دیکھنے کا کوئی فائدہ نہیں، امریکا آباد کاری کے حوالے سے اسرائیلی عدالت کے فیصلوں سے اتفاق کرتا ہے'۔

اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے اس اعلان کے بعد سیاسی فوائد حاصل کرنے میں دیر کیے بغیر بیان جاری کیا کہ 'ٹرمپ انتظامیہ نے تاریخی ناانصافیوں کو درست کردیا ہے، اسرائیل کے لیے یہ بہت بڑا دن ہے، یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے جسے نسلیں یاد رکھیں گی'۔

تاہم چند اسرائیلی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اس اعلان کے نمایاں اثرات سامنے نہیں آئیں گے کیونکہ نیتن یاہو کی حکومت نے 1967 میں جنگ کے بعد اردن سے قبضہ کیے گئے علاقوں میں پہلے ہی آباد کاریاں شروع کر رکھی ہیں۔

مزید پڑھیں: اسرائیل نے انتخابات سے 2 روز قبل نئی آبادکاریاں منظور کرلیں

آباد کاری عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہی رہے گی، اقوام متحدہ

دوسری جانب جنیوا میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کا کہنا تھا کہ آباد کاری عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہی رہیں گی۔

خیال ر ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس سے قبل بھی اسرائیل کی حمایت میں اقدامات کیے ہیں جن میں 2017 میں یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا، 2018 میں امریکی سفارتخانے کی یروشلم منتقلی اور فلسطین کو ملنے والی امریکی امداد روکنا شامل ہے۔

رواں سال مارچ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کے 1967 میں شام سے قبضہ کیے گئے گولان ہائیٹس کو باضابطہ طور پر تسلیم کرتے ہوئے اس حوالے سے دستاویزات پر دستخط کر دیے تھے۔

اسرائیل کی داہنی بازو کی تنظیم 'پیس ناؤ' کی آباد کاری کی نگراں ہاگت اوفران کا کہنا تھا کہ مغربی کنارے میں 4 لاکھ 30 ہزار اور مشرقی یروشلم میں 2 لاکھ لوگوں کو آباد کیا گیا ہے۔

مائیک پومپیو کے اعلان کے بعد ان کا کہنا تھا کہ 'آپ اگر امریکا کے فلسطین اور اسرائیل کے حوالے سے صدی کے سب سے بڑے معاہدے کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں تو اب آپ کو معلوم ہوگیا ہوگا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اس اقدام سے بتایا گیا ہے کہ فلسطینیوں! تمہارے کوئی بنیادی حقوق اور مطالبات پورے نہیں کیے جائیں گے'۔

امریکا کے اس اقدام کی فلسطین سمیت دنیا بھر کے کئی ممالک نے مذمت کی۔

یہ بھی پڑھیں: اسرائیل کا متنازع گولان ہائٹس کا نام ’ڈونلڈ ٹرمپ‘ رکھنے کا فیصلہ

فلسطین

فلسطینی وزیر اعظم محمد اشتیہ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ 'ٹرمپ انتظامیہ کی اسرائیل کے لیے جانبداری اتنی بڑھ گئی ہے کہ وہ عالمی قوانین اور اتفاق رائے کے بنیادی اصولوں پر اندھے ہوچکے ہیں'۔

فلسطینی سفیر برائے اقوام متحدہ ریاض منصور کا کہنا تھا کہ وہ سلامتی کونسل اور دیگر ممالک کے ساتھ مشاورت کر رہے ہیں تاکہ امریکا کے غیر قانونی اعلان پر عالمی پوزیشن پر اتفاق رائے پیدا ہو'۔

ترکی

ترک وزیر خارجہ میولوت کاووسوگلو نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ کوئی بھی ملک عالمی قوانین سے بالاتر نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'خود ساختہ طور پر کیے گئے اعلان کی کوئی حیثیت نہیں ہے'۔

اردن

اردن کے وزیر خارجہ ایمن الصفدی کا کہنا تھا کہ امریکا کے آباد کاری کے حوالے سے پوزیشن تبدیل کرنے کے 'خطرناک اثرات' سامنے آئیں گے۔

انہوں نے آباد کاری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ 'انہوں نے فلسطین کی ریاست کا اسرائیل کے ساتھ ساتھ ہونے کا نظریہ ختم کردیا ہے'۔

روس

روسی وزارت خارجہ امور کا کہنا ہے کہ امریکا کا مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیل کے یہودی آباد کاری کے حق کو تسلیم کرنے کا فیصلہ اسرائیل - فلسطین تنازع کی قانونی بنیادوں کے خلاف ہے۔

انہوں نے بیان جاری کرتے ہوئے امریکا کے اقدام کی مذمت کی اور کہا کہ 'اس سے خطے میں کشیدگی میں اضافہ ہوگا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ماسکو کا ماننا ہے کہ فلسطینی زمین پر آباد کاریاں عالمی قوانین کے تحت غیر قانونی ہیں'۔

خیال رہے کہ اسرائیل نے 1967 میں 6 روزہ جنگ کے دوران گولان ہائٹس، مغربی کنارے، مشرقی یروشلم اور غزہ کی پٹی پر قبضہ کیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں