عورت مارچ کے نعروں کو ہمارا معاشرہ اور مذہب قبول نہیں کرتا، فردوس عاشق اعوان

اپ ڈیٹ 06 مارچ 2020
فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ مٹھی بھر افراد ہماری قوم کی بہنوں اور بیٹیوں کو گمراہ کر رہے ہیں — فائل فوٹو: اے پی پی
فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ مٹھی بھر افراد ہماری قوم کی بہنوں اور بیٹیوں کو گمراہ کر رہے ہیں — فائل فوٹو: اے پی پی

وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ عورت مارچ کے نعروں کو ہمارا مذہب اور معاشرہ قبول نہیں کرتا اور مٹھی بھر افراد ہماری قوم کی بہنوں اور بیٹیوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔

اسلام آباد میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ خواتین کو تحفظ دینا، انہیں بااختیار بنانا، پاکستان کے آئین و قانون سمیت ثقافتی و تہذیبی اقدار اور عورت کی توقیر اور شان کے مطابق پالیسی بنانا اور اس پر عمل کرنا وزیراعظم عمران خان کی اولین ترجیح ہے۔

مزید پڑھیں: ماروی سرمد کو گالی دے کر اپنا بدلہ لیا، خلیل الرحمٰن قمر

انہوں نے کہا کہ ریاست مدینہ کے تصور کو آگے بڑھانے میں خواتین کے کردار کو تسلیم کیے بغیر اس ریاست کی بنیادیں مضبوط نہیں بنائی جاسکتیں۔

فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ ہم وہ خوش قسمت خواتین ہیں جو ایک ایسے معاشرے کی باعمل اور بااختیار شہری ہیں جہاں ہمارا دین ہمارے لیے چادر اور چار دیواری کی حدود کو طے کر کے زندگی گزارنے اور زندگی میں آگے بڑھنے کے تمام اصول واضح کرچکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان اصولوں کی روشنی میں اسلامی فلاحی ریاست پاکستان میں آئین تمام خواتین کو یکساں مواقع فراہم کرنے اور ان کو ہر طرح سے بااختیار بنانے میں معاونت کر رہا ہے اور موجودہ حکومت خواتین کو معاشی محاذ پر ایک اہم پارٹنر بنانے جا رہی ہے۔

معاون خصوصی نے کہا کہ پرامن احتجاج ہر شخص کا بنیادی حق ہے اور پاکستان کا آئین اور قانون اس حق کو تسلیم کرتا ہے اور اس کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے حکومت پرعزم ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے اندر ہر طبقہ فکر، سوچ اور جنس سے تعلق رکھنے والا شہری اپنا حق استعمال کر سکتا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ میری بیٹیوں، بہنوں اور خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے جن نعروں کا استعمال کیا جا رہا ہے وہ کس معاشرے کی عکاسی کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ’اصل فیمنسٹ کام پر توجہ دیتے ہیں، حقوق مانگنے پر وقت ضائع نہیں کرتے‘

ان کا کہنا تھا کہ 'میرے معاشرے کی بنیاد سماجی، سیاسی، ثقافتی اور مذہبی اقدار پر رکھی گئی ہے، میرے معاشرے میں سب سے پہلے طاقت میرا باپ دیتا ہے، پھر میرا بھائی میری عزت و توقیر کا ضامن بنتا ہے، پھر میرا خاوند میرا سرپرست بنتا ہے اور پھر میرا بیٹا بڑھاپے کا سہارا بنتا ہے'۔

فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ 'یہ میرا نظام ہے جو مجھے مذہبی انداز سے سماجی طور پر تحفظ فراہم کرتے ہوئے سپورٹ کرتا ہے اور میری طاقت بنتا ہے تو پھر مجھے اپنے آپ کو کمزور بنا کر اس طرح کے نعروں کے ساتھ کونسی طاقت چاہیے جس کے لیے مجھے سڑکوں پر آ کر وہ نعرے بلند کرنے پڑتے ہیں جن کی ہمارے معاشرتی نظام، معاشرتی رویوں، مذہب اور گھر میں اجازت نہیں اور نہ ذہن انہیں قبول کرتا ہے'۔

معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات نے کہا کہ یہ دیکھنا ہو گا کہ مٹھی بھر ایسی کون سی سوچ کے حامل افراد ہیں جو میری قوم کی بہنوں اور بیٹیوں کو گمراہ کرنے میں مصروف ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر عورت مارچ والے پاکستان کی چادر چار دیواری کا تقدس پامال کیے بغیر نکلیں میں اس مارچ میں شانہ بشانہ آپ کی طاقت بنوں گی اور آپ کو طاقتور بنانا ہی ہمارا سب سے بڑا اور اہم مشن ہے۔

فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ افسوس اس بات کا ہے کہ میڈیا کے اندر جو لوگ میری بیٹیوں کو طاقت دینے اور بااختیار بنانے کے لیے نعرے متعارف کرا رہی ہیں انہیں اس بات کا شاید اندازہ نہیں ہے کہ اس سے سب سے زیادہ عورت ہی نشانہ بن رہی ہیں۔

مزید پڑھیں: ’میرا جسم میری مرضی کو آوارہ گردی‘ کہنے پر شیری رحمٰن کا سینیٹر کو کرارا جواب

یاد رہے کہ جہاں کچھ افراد ’عورت مارچ‘ اور ’میرا جسم، میری مرضی‘ جیسے نعروں کی حمایت کررہے ہیں، وہیں کچھ افراد ان کی مخالفت بھی کر رہے ہیں اور ان کی مخالفت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ جس طرح کوئی بھی شخص اپنی ذاتی مرضی، سوچ اور پسند کے مطابق ’عورت مارچ‘ اور ’میرا جسم، میری مرضی‘ جیسے نعروں کی حمایت کر رہا ہے، اسی طرح وہ ان کی مخالفت کر رہے ہیں۔

یہ تنازع اس وقت شدت اختیار کر گیا جب گزشتہ دنوں معروف ڈراما نگار خلیل الرحمٰن قمر نے نجی ٹی وی کے پروگرام میں عورت مارچ پر بحث کے دوران معروف سماجی رہنما ماروی سرمد کے خلاف نازیبا زبان کا استعمال کیا تھا جس پر انہیں خوب تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں