پشاور زلمی اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے درمیان وہی مسابقت سامنے آ رہی ہے جو کبھی لاہور اور کراچی کے درمیان ہوتی تھی۔ دونوں ٹیمیں ایک دوسرے کو خوب ٹکر دیتی ہیں۔ ویسے تو یہ خیال کیا جارہا تھا کہ بارش کی وجہ سے یہ اہم ترین میچ شاید منعقد نہ ہوسکے، مگر راولپنڈی کے گراؤنڈ اسٹاف کا شکریہ جن کی زبردست محنت کے سبب 15 اوورز کا کھیل ممکن ہوگیا۔

لیکن اس بار یہ کمال ہوگیا کہ دونوں ٹیموں کے درمیان کھیلے جانے والے دونوں ہی میچوں میں پشاور فتحیاب رہی، اور اس کو یہ جیت حاصل کرنے میں زیادہ مشکل بھی پیش نہیں آئی۔ اس میچ میں کیا کچھ ہوا آئیے اس کا ایک جائزہ لیتے ہیں۔

ٹام بینٹن کی بے دخلی

پشاور والوں نے خراب فارم کی وجہ سے ٹام بینٹن کو بالآخر ڈراپ کردیا اور ان کی جگہ امام الحق کو میدان میں اتارا۔ پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں انٹری سے پہلے بینٹن بڑی امیدوں کا مرکز بنے ہوئے تھے کیونکہ ان میں مخالف ٹیم کو تہس نہس کرنے کی پوری پوری صلاحیتیں موجود ہیں۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ وہ ان امیدوں پر کسی بھی طور پر پورا نہیں اترسکے۔

اگرچہ خراب فارم کی وجہ سے بینٹن کو باہر بٹھانا سمجھ آتا ہے، مگر یہ بات اب بھی سمجھ سے باہر ہے کہ ایک ایسے میچ میں امام الحق کو کیوں کھلایا گیا جس کے بارے میں تقریباً یقین ہوچکا تھا کہ یہ تو یہ میچ کھیلا ہی نہیں جاسکے گا، اور اگر کھیلا بھی گیا تو اوورز کچھ کم ضرور ہوں گے۔

امام الحق وکٹ پر ٹائم لیتے ہیں، وہ فوری طور پر کھل کر نہیں کھیل سکتے، اس لیے یہ ایک عجیب فیصلہ تھا جو غلط ثابت بھی ہوگیا۔ پشاور والوں سے ایسے فیصلے کی توقع نہیں تھی۔ ویسے بھی آپ کے پاس حیدر علی جیسا اوپنر موجود ہے تو آپ کیونکر کارلوس بریتھویٹ کی طرف نہیں گئے؟

نسیم شاہ بمقابلہ حیدر علی

کرکٹ ایسا کھیل ہے جس میں کچھ لمحے دیکھنے والوں کو اپنی جگہ ساکت کردیتے ہیں، ایسا ہی خوش کن منظر اس میچ میں اس وقت دیکھنے کو ملا جب نسیم شاہ اپنا دوسرا اوور کرنے آئے اور پہلی ہی گیند پر حیدر علی نے شاندار کور ڈرائیو لگائی۔ نسیم شاہ نے نظر بھر کر حیدر کو دیکھا اور واپس پلٹ گئے اور اگلی بال اس قدر خوبصورت کروائی جس کا حیدر علی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ ان 2 گیندوں میں پاکستان کے مستقبل نے اپنی قابلیت کی شاندار جھلک دکھا دی۔

فواد خان کی عدم موجودگی

جب آپ کے پاس نسیم شاہ، محمد حسنین، سہیل خان اور بین کٹنگ کی صورت میں 4 بہترین فاسٹ باؤلنگ آپشن موجود ہیں تو آپ کو اپنا سب سے بہترین اسپنر باہر نہیں بٹھانا چاہیے۔ فواد خان گزشتہ سپر لیگ میں بھی بہترین تھے اور اس بار بھی عمدہ کھیل پیش کر رہے ہیں، لیکن اس بار انہیں مسلسل مواقع نہیں دیے جا رہے۔ خاص کر جب لاہور والے میچ میں نواز کی بہت زیادہ پٹائی ہوچکی تھی تب تو فواد کو بالکل ڈراپ نہیں کرنا چاہیے تھا۔

کسی بھی فارمیٹ میں لیگ اسپنر کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، یہ ہمیشہ وکٹ لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اور پھر فواد اس لیے بھی کارآمد ہیں کہ مار پڑنے کے بعد بھی وہ اپنا کنٹرول نہیں کھوتے۔ یہاں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ان کی عدم موجودگی نے بھی کوئٹہ کو بہت نقصان پہنچایا۔

غیر ضروری شارٹ پچ باؤلنگ

جب وکٹ بیٹنگ کے لیے سازگار ہو، اور بال بہت آسانی سے بیٹ پر آرہی ہو تو شارٹ بال کے ذریعے بیٹسمین کو بیک فٹ یا پریشان کرنے کا خیال، کسی دیوانے کا ہوسکتا ہے۔ محمد حسنین نے آتے ہی کامران اکمل کو 2 شارٹ بال کروائیں اور دونوں پر ہی نتیجہ چھکوں کی صورت میں نکلا۔

ساری دنیا جانتی ہے کہ کامران اس طرح کی گیندوں کو بہت ہی زبردست اور اعتماد سے کھیلتے ہیں، اس لیے اس طرح کی باؤلنگ کو ہم تحفہ ہی کہہ سکتے ہیں اور ایک ایسے وقت میں تو یہ تحفہ بہت قیمتی ثابت ہوا جب پشاور والے ابھی ٹھیک سے سیٹ بھی نہیں ہوپائے تھے۔

سہیل خان کی باؤلنگ کا بھی یہی مسئلہ ہے، اور چونکہ ان کی رفتار بھی کم ہوچکی ہے اس لیے ان کو کھیلنا پہلے کے مقابلے کافی آسان ہوچکا ہے۔ ویسے بھی جب تیزی سے رنز بن رہے ہوں تو باؤلر کے لیے یہی اچھا ہے کہ وہ جلد سے جلد بنیادی نکات کی طرف لوٹ جائے۔

آخری اوورز میں خراب باؤلنگ

ابھی مشہور ماہرِ شماریات مظہر ارشد کی ویڈیو دیکھی جس میں انہوں نے بتایا کہ کیسے کوئٹہ آخری اوورز میں میچ ہاتھ سے نکال رہا ہے۔ کوئٹہ مسلسل 3 میچ ہار چکا ہے اور پی ایس ایل کی تاریخ میں یہ صرف دوسرا موقع ہے جب انہیں لگاتار ایک ساتھ اتنی شکستوں کا منہ دیکھنا پڑا۔

ملتان، لاہور اور اب پشاور کے خلاف تینوں شکستوں میں جو چیز مشترک تھی وہ اننگ کے آخری حصے میں بُری باؤلنگ تھی۔ حیرت تو یہ ہے کہ اس کے باوجود کوئٹہ والے اپنا بہترین لیگ اسپنر باہر بٹھا رہے ہیں۔

آؤٹ آف فارم ٹاپ آرڈر

کوئٹہ کو 171 رنز کا ہدف ملا اور یقیناً 15 اوورز کے میچ میں یہ ایک بڑا ہدف تھا۔ گوکہ تاریخی طور پر کوئٹہ والے اچھا تعاقب کرنے کے لیے مشہور ہیں تاہم اس بار حالات وہ نہیں رہے۔

کوئٹہ کا ٹاپ آرڈر کا مسئلہ شدت اختیار کرچکا ہے۔ گزشتہ سال جب انہوں نے ٹرافی اٹھائی تھی تو اس میں شین واٹسن کا کردار کلیدی تھا، مگر اس بار ایک یا 2 اننگز کے علاوہ ان کا بلا خاموش ہے۔ ان سے نہ تو لمبی اننگ کھیلی جا رہی ہے اور نہ ہی ان سے دھواں دھار بیٹنگ ہورہی ہے۔ یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ اتنے بڑے کھلاڑی کو ڈراپ بھی نہیں کیا جاسکتا۔ شین واٹسن دراصل وہ ٹوکری ہے جس میں کوئٹہ والوں کے زیادہ انڈے پڑے ہوئے ہیں۔

اسی طرح جیسن رائے کا تو نام سنتے ہی چوکوں اور چھکوں کی جھلکیاں نظر آنے لگتی ہیں، لیکن یہاں پاکستان سپر لیگ کی بات ہو رہی ہے جہاں باؤلنگ کا معیار دنیا سے بلند ہے اسی لیے جیسن رائے جیسا سپر اسٹار بھی اپنے نام سے انصاف کرنے سے قاصر ہے۔

احمد شہزاد، احسن علی یا کوئی اور؟

کوئٹہ والے بڑی مصیبت میں پھنس چکے ہیں اور 7 میچوں میں مسلسل کیے جانے والے تجربات بھی کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ پہلے احمد شہزاد کو آزمایا، وہ ناکام ہوئے تو احسن علی کو آزمایا، جب وہ بھی ناکام ہوئے تو ایک بار پھر احمد شہزاد کی جانب آگئے، لیکن مصیبت ہے کہ ٹلنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔

مڈل آرڈر کے معاملے میں کوئٹہ بڑی مشکل میں پھنس چکا ہے—فوٹو: ڈان
مڈل آرڈر کے معاملے میں کوئٹہ بڑی مشکل میں پھنس چکا ہے—فوٹو: ڈان

اصل مسئلہ یہ ہے کہ کوئٹہ وہ واحد ٹیم ہے جس کے بلے بازوں میں سے اکثریت پاکستانی ٹیم میں جگہ بنانے پر نظریں مرکوز کیے بیٹھی ہے۔ ڈان کے ان صفحات میں ہم پہلے بھی اس خدشے کا اظہار کرچکے ہیں کہ یہ سوچ ٹیم سے زیادہ اپنی ذات پر توجہ مبذول کرا دیتی ہے۔ احمد شہزاد کی خود غرضی ہر مبنی بدترین اننگ اس کی شاندار مثال ہے۔

بزدل کپتان

سرفراز احمد دنیا کے واحد بلے باز ہیں جو اپنی قابلیت سے فائدہ اٹھانے سے باقاعدہ انکار کرتے ہیں۔ ماہرین ایک عرصے سے دہائی دے رہے ہیں کہ سرفراز کو اوپر بلے بازی کرنی چاہیے۔ اعداد و شمار بھی یہی بتاتے ہیں کہ اس سپر لیگ میں بھی سرفراز نے اوپر آکر میچ جتوایا ہوا ہے لیکن معلوم نہیں کیا مسئلہ ہے کہ وہ پھر پیچھے چھپ جاتے ہیں۔

یہی وہ مسئلہ تھا جس کی وجہ سے انہیں نہ صرف پاکستانی ٹیم کی کپتانی بلکہ جگہ سے بھی ہاتھ دھونا پڑے تھے۔ سرفراز پیچھے چھپ کر اپنے اور ٹیم کے لیے سوائے مشکلات کے کچھ حاصل نہیں کر رہے۔

ناقابلِ اعتبار مڈل آرڈر

کوئٹہ والوں نے کل کے میچ میں جو مڈل آرڈر کھلایا وہ سارا آر یا پار والا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بین کٹنگ اچھی بیٹنگ کررہے ہیں، لیکن وہ ایک فنشر ہیں اور ان سے اننگ بنانے کی توقعات وابستہ کرنا زیادتی ہے۔ ان کے کام کو سمجھنا ہوگا۔ وہ 30 یا 40 تیز رنز بناکر میچ جتوا سکتے ہیں اور ان سے یہی کام لینے کی ضرورت ہے۔ انہیں اننگ بنانے کی ذمہ داری دینا منیجمنٹ کی زیادتی ہے۔

اعظم خان نے اپنی کارکردگی سے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ عمر اکمل کی جگہ آئے ہیں۔ کم قابلیت اور بُری فٹنس کے ساتھ باقی سب کچھ عمر اکمل والا ہے۔

اسی طرح نواز اب بیٹسمین سے زیادہ باؤلر بن چکے ہیں جتنی جلدی یہ بات کوئٹہ والے سمجھ جائیں ان کے لیے اچھا ہے۔

ورلڈ کلاس باؤلنگ

سب سے آخر میں پشاور زلمی کی تحسین نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ ان کی باؤلنگ ہر ہر طرح سے عالمی معیار کی ہے۔ انٹرنیشنل کرکٹ میں بہت کم ٹیمیں ایسی ہوں گی جن کے پاس ایسا مستند باؤلنگ اٹیک موجود ہو۔ حسن علی نے پہلے کچھ میچوں میں خراب باؤلنگ ضرور کی تھی لیکن اب وہ بہتر ہو رہے ہیں۔ میچ پریکٹس بھی مل چکی ہے۔

وہاب ریاض ڈومیسٹک کرکٹ کے بہت عمدہ پیکج ہیں۔ یاسر شاہ بھی امیدوں کے برخلاف اچھا کھیل پیش کررہے ہیں۔ اگرچہ کوئٹہ کے خلاف راحت علی مہنگے ثابت ہوئے، مگر وہ ایک ایسے مکمل باؤلر ہیں جو وکٹ لے کر کپتان کی مدد کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ لیام ڈاسن کا تجربہ بھی پشاور کے اکثر کام آجاتا ہے، اور پھر بوقتِ ضرورت شعیب ملک کی صلاحیتیں بھی ہر وقت پشاور کے لیے حاضر رہتی ہیں۔

پشاور کا باؤلنگ اٹیک—فوٹو: ڈان
پشاور کا باؤلنگ اٹیک—فوٹو: ڈان

پشاور زلمی اب مسلسل اوپر جا رہی ہے جبکہ کوئٹہ ایک اچھے آغاز کے بعد نیچے کی طرف گامزن ہے۔ شائقین کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ پوائنٹس ٹیبل بہت دلچسپ ہوتا جا رہا ہے، اور آگے آنے والا ہر ایک میچ اہمیت اختیار کرگیا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں