'دنیا بھر کی قومی اسمبلیوں میں ایک چوتھائی خواتین رکن پارلیمنٹ ہیں'

اپ ڈیٹ 07 مارچ 2020
آئی پی یو نے خبردار کیا کہ غیرمعمولی دباؤ کے باوجود صنفی برابری کی طرف سست روی سے جاری ہے—فائل فوٹو: ڈان نیوز
آئی پی یو نے خبردار کیا کہ غیرمعمولی دباؤ کے باوجود صنفی برابری کی طرف سست روی سے جاری ہے—فائل فوٹو: ڈان نیوز

بین الاقوامی پارلیمانی یونین (آئی پی یو) نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں قومی اسمبلیوں میں موجود تمام اراکین پارلیمنٹ کی ایک چوتھائی تعداد خواتین پر مشتمل ہے۔

آئی پی یو نے خبردار کیا کہ غیرمعمولی دباؤ کے باوجود صنفی مساوات کی طرف سفر سست روی سے جاری ہے۔

مزیدپڑھیں: خواتین کی تعداد مردوں سے زیادہ

آئی پی یو کی جانب سے جاری حالیہ رپورٹ میں سال 2018 کا حوالہ دے کر کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں خواتین پارلیمنٹیرینز کی تعداد 24.9 فیصد ہے۔

آئی پی یو کے سیکریٹری جنرل مارٹن چونگونگ نے جنیوا میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا حالیہ برس میں 'مثبت پیش رفت ہوئی ہے' کیونکہ 1995 میں یہ شرح صرف 11.3 فیصد تھی۔

انہوں نے کہا کہ 'لوگوں کے سوچنے کے انداز میں ایک تبدیلی آئی ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 25 برس قبل تک کوشش تھی کہ پارلیمنٹ میں 30 فیصد تک خواتین کی نمائندگی ہو لیکن آج 50-50 پر مشتمل صنفی برابری کا تصور عام ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 'خواتین برابری کی بات کرتی ہیں تو مرد کا گینگ ریپ بھی کرلیں'

اس ضمن میں بتایا گیا کہ روانڈا، کیوبا، بولیویا اور متحدہ عرب امارات کی پارلیمنٹ میں صنفی برابری موجود ہے۔

رپورٹ کے مطابق امریکا کی پارلیمنٹ میں 31.3 فیصد اور برطانوی پارلیمنٹ میں خواتین اراکین کی تعداد 30 فیصد ہے۔

عالمی ادارے کے مطابق بحر الکاہل کے خطے میں پارلیمنٹ میں خواتین کی نمائندگی افسوس ناک حد تک کم ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ بحرالکاہل میں صرف 19.4 فیصد خواتین پارلیمنٹ میں موجود ہیں جبکہ اسی خطے کے تین ممالک مائیکرونیشیا، پاپوا نیو گنی اور وانواتو میں کوئی خاتون رکن نہیں ہے۔

ادارے کی سیکریٹری جنرل نے متنبہ کیا کہ دنیا بھر میں اب واضح طور پر 'خواتین کی پارلیمنٹ میں شمولیت میں اضافہ' ہوا، پچھلے برس پارلیمنٹ میں خواتین کی نمائندگی میں صرف 0.6 فیصد اضافہ ہوا جبکہ اس سے قبل 0.9 فیصد کا غیرمعمولی اضافہ ہوا تھا'۔

مزیدپڑھیں: آخر خواتین کے مقابلے میں مرد زیادہ موٹاپے کا شکار کیوں ہوتے ہیں؟

انہوں نے کہا کہ 'جب خواتین کی سیاسی شرکت کی بات کی جائے تو مخالفت ہوتی ہے اور یہ ضروری ہے کہ ہم اس مخالفت کو پیچھے دھکیل دیں'۔

تبصرے (0) بند ہیں