وینزویلا: حکومتی تختہ الٹنے کے الزام میں 2 امریکی فوجیوں کےخلاف دہشت گردی کا مقدمہ

اپ ڈیٹ 09 مئ 2020
وینزویلا کی حکومت کی جانب سے پکڑے گئے امریکی فوجیوں میں سے ایک کی جاری کردہ تصویر— فوٹو: رائٹرز
وینزویلا کی حکومت کی جانب سے پکڑے گئے امریکی فوجیوں میں سے ایک کی جاری کردہ تصویر— فوٹو: رائٹرز

وینزویلا میں حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش میں ملوث 2 سابق امریکی فوجیوں کے خلاف دہشت گردی اور سازش کا مقدمہ درج کرلیا گیا۔

واضح رہے کہ 5 مئی کو وینزویلا میں حکومت کا تختہ الٹنے اور صدر نکولس مدورو کو پکڑنے کی کوشش ناکام بنا دی گئی تھی اور اس سازش میں ملوث دو امریکیوں سمیت 10 افراد کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔

اس ضمن میں تازہ اطلاعات کے مطابق دونوں سابق امریکی فوجی ایرون بیری اور لیوک ڈینمن ان زیر حراست افراد میں شامل تھے جنہیں وینزویلا کی فوج نے چند روز قبل گرفتار کیا تھا۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق پراسیکیوٹر جنرل ترین ولیم صاب نے کہا کہ دونوں امریکیوں پر ’دہشت گردی، سازش کرنے، جنگی ہتھیاروں کی غیر قانونی اسمگلنگ اور فوجداری تعلق‘ کا الزام عائد کیا گیا ہے اور انہیں 25 سے 30 سال قید کی سزا ہوسکتی ہے۔

مزید پڑھیں: فلپائن کے سب سے بڑے ٹی وی نیٹ ورک کو بند کرنے کا حکم

ترین ولیم صاب نے کہا کہ وینزویلا نے فلوریڈا میں مقیم ایک کمپنی کی سربراہی کرنے والی امریکی فوج کے سابق فوجی اردن گوڈریؤ کی گرفتاری کے لیے بین الاقوامی گرفتاری کے وارنٹ کی درخواست کی ہے جس کا کہنا ہے کہ وہ معاوضے کی مد میں اسٹریٹجک سیکیورٹی خدمات پیش کرتا ہے۔

واضح رہے کہ اردن گوڈریو نے میڈیا انٹرویو میں کہا تھا کہ انہوں نے یہ کارروائی وینزویلا میں کی۔

علاوہ ازیں وینزویلا کے صدر نکولس مدورو نے الزام لگایا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ براہ راست اس حملے کے پیچھے ہیں۔

دوسری جانب ٹرمپ نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے فاکس نیوز کو یہ کہا کہ اگر میں وینزویلا جانا چاہتا تو میں اس کے بارے میں کوئی راز نہیں ہوگا۔

امریکی صدر نے کہا کہ میں وینزویلاجاؤں گا اور وہ اس کے بارے میں کچھ نہیں کرسکیں گے، وہ پلٹ جائیں گے،

میں ایک چھوٹا سا گروپ نہیں بھیجوں گا، نہیں، نہیں، بالکل نہیں اُسے فوج کہتے ہیں اور یہ حملہ کہلائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا: برطانیہ میں ہلاکتیں اٹلی سے زیادہ، یورپ کا سب سے زیادہ اموات والا ملک بن گیا

امریکی فوج نے وینز ویلا میں زیر حراست سابق فوجیوں کی تصدیق کی ہے کہ وہ گرین بیریٹس کے سابق ممبر تھے جو عراق میں تعینات تھے۔

سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو نے کہا کہ امریکی حکومت ’انہیں واپس لانے کے لیے ہر ممکن وسائل اور رابطے استعمال کرے گی‘۔

سابق امریکی فوجی کا اعترافی بیان

واضح رہے فلوریڈا سے تعلق رکھنے والے امریکی فوج کے ایک سابق عہدیدار نے حملے کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے تصدیق کی تھی کہ ان کے تربیت یافتہ دو امریکی اہلکار اس وقت وینزویلا کی حکومت کی تحویل میں ہیں۔

امریکی فوج کے سینئر عہدیدار جورڈن گوڈریو نے کہا تھا کہ دو امریکی ایرون بیری اور لیوک ڈینمن ان کے ساتھ کام کر رہے تھے اور انہیں پکڑ لیا گیا ہے، وہ میرے آدمی تھے اور میرے ساتھ کام کررہے تھے۔

انہوں نے مزید بتایا تھا کہ انہوں نے اتوار کو کولمبیا سے یہ آپریشن شروع کیا تھا جس کا مقصد وینزویلا فتح کرنا تھا، ساحلی شہر لا گوائرا کے ساحل پر کیے گئے اس آپریشن میں آٹھ افراد مارے گئے۔

انہوں نے گرفتار کیے گئے دونوں افراد کے نام بتاتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ یہ دونوں ان کے ساتھ عراق اور افغانستان میں کام کر چکے ہیں اور یہ افراد 'آپریشن گیڈیون' نامی مشن پر تھے۔

مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم دنیا کو دکھانے والے فوٹوگرافرز نے ایوارڈ جیت لیا

امریکی فوجی نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے اپوزیشن لیڈر جوآن گوائیڈو کے ساتھ مدورو کی حکومت کا تختہ الٹنے کا معاہدہ کیا تھا لیکن گوائیڈو نے اس دعوے کی تردید کردی۔

تردید کے جواب میں گوڈریو نے کہا تھا کہ اس معاہدے کی مالیت 20 کروڑ ڈالر تھی اور ان کے پاس اس معاہدے کی دستاویز بھی موجود ہے جس پر جوائیڈو کے دستخط ہیں۔

البتہ اپوزیشن لیڈر جوآن جوائیڈو اتوار کو اقتدار پر قبضے کی کوشش میں ناکامی کے حوالے سے جاری کیے گئے حکومتی بیانیے سے متفق نہیں تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ صدر ملک کے معاملات اور مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے اس طرح کی کہانیاں گڑھ رہے ہیں۔

جوآن جوائیڈو کو امریکا کا حمایت یافتہ تصور کیا جاتا ہے اور حکومت کا تختہ الٹنے کی اس ناکام سازش میں یہ مانا جا رہا ہے کہ وہ بھی ملوث تھے البتہ اپوزیشن رہنما کی مواصلاتی ٹیم نے ان الزامات کو مسترد کردیا ہے۔

صدر مدورو کے اتحادی اور اٹارنی جنرل طارق ولیم نے کہا تھا کہ اس حملے میں مبینہ طور پر ملوث 114 افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور مزید 92 افراد کی تلاش جاری ہے۔

امریکا نے 2018 کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات عائد کرتے ہوئے وینزویلا پر سخت معاشی پابندیاں عائد کردی تھیں تاکہ وہ مدورو کو اقتدار سے ہٹا سکیں لیکن وینزویلا کی حکومت یہ الزام عائد کرتی رہی ہے کہ امریکا دراصل ان کے ملک کے تیل کے وسیع ذخائر پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: دہلی میں شراب خانوں سے ہجوم کو کم کرنے کیلئے 70 فیصد ’کورونا ٹیکس‘ عائد

وینزویلا کے موجودہ صدر مدورو کے دور میں ملک انتہائی مشکل صورتحال سے دوچار ہے اور سیاسی اور معاشی بحران ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔

ملک میں عوامی سہولیات بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہیں اور سڑکوں پر ابلتے گٹر، بجلی اور طبی سہولیات کے فقدان کے سبب ملک سے 50 لاکھ باشندے نقل مکانی پر مجبور ہو گئے ہیں۔

امریکا مسلسل مدورو کی مخالفت کرتارہا ہے اور ان پر منشیات کی اسمگلنگ کا الزام لگاتے ہوئے گرفتاری کے لیے 15 ملین ڈالر کے انعام کا اعلان کیا تھا۔

وینزویلا اور امریکا کے درمیان گزشتہ سال تعلقات اس حد تک خراب ہو گئے تھے کہ دونوں کے سفارتی تعلقات بالکل ختم ہو گئے تھے اور اس وقت دارالحکومت کیریکس میں امریکا سفارتخانہ نہیں۔

واضح رہے کہ 8 مئی کو مدورو نے انکشاف کیا تھا کہ پڑوسی ملک کولمبیا سے کچھ مسلح افراد نے کشتیوں پر ملک میں داخل ہونے کی کوشش کی لیکن اس حملے کو ناکام بنا دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: اٹلی میں لاکھوں مزدور کام پر واپس، اسپین میں ٹرانسپورٹ چلانے کی اجازت

وینزویلا کی حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ اس حملے کا اصل مقصد حکومت کا تختہ الٹنا اور صدر مدورو کو اغوا کرنا تھا لیکن ان کی یہ کوشش ناکام بنا دی جس کے نتیجے میں 8 افراد ہلاک اور دو کو گرفتار کیا گیا البتہ بعد میں گرفتار افراد کی تعداد بڑھا دی گئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں