وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز نے اپوزیشن جماعتوں کو تنقید کانشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کو اس وقت دو وائرسز کا سامنا ہے جس میں ایک تو کورونا ہے اور دوسرا کرپشن ہے اور دوسرے وائرس کا علاج عمران خان ہے۔

اسلام آباد میں معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کے ہمراہ پریس کانفرنس میں وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ ملک اس وقت 2 وائرسز کا شکار ہے، ایک وائرس کورونا کے نام سے جانا جاتا ہے، بدقسمتی سے اس کا ابھی تک کوئی اینٹی ڈوٹ دریافت نہیں ہوا، اس وائرس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔

کرپشن کو دوسرا وائرس قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان اس کا علاج ہیں اور اس وائرس سے بھی نمٹا جارہا ہے۔

کورونا وائرس پر بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بھی یہ وائرس اپنی تباہی پھیلا رہا ہے جس سے حکومت پاکستان، وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں ایک بڑے جامع پلان و حکمت عملی کے ساتھ نمٹ رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:کورونا کیخلاف ناقص انتظام: لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے انتہائی نگہداشت یونٹ کی سربراہ مستعفی

شبلی فراز کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز وزیراعظم اور ان کے رفقا نے بڑی تفصیل سے اپنی حکمت عملی و اعداد و شمار، موجودہ حالات اور آنے والے وقت سے متعلق لائحہ عمل پر تبادلہ خیال کیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ وہ پلان ہے جس میں ہم اپنی طاقت و کمزوریوں دونوں کو استعمال میں لارہے ہیں، ہمارے ملک کو کافی مشکلات کا سامنا ہے لیکن اس کے باوجود عمران خان نے 1.2 کھرب روپے کے ایک جامع پیکج کا اعلان کیا۔

وزیراطلاعات کا کہنا تھا کہ اس پیکج کا مقصد معاشرے کے مختلف طبقات کی مدد کرنا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں جب یہ وبا آئی تو حکومت اور وزیراعظم کی حکمت عملی بڑی واضح تھی، انہوں نے ایسا پروگرام ترتیب دیا جس سے نہ صرف ملک کو اس آفت سے بچایا جائے بلکہ 2 ادارے این سی سی اور این سی او سی بنائے۔

انہوں نے کہا کہ این سی او سی میں ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز، ڈاکٹرز، سیاسی قائدین، پارلیمینٹیرین، ماہرین، تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ شامل ہیں کیونکہ حکومت کا یہ واضح موقف تھا کہ صرف پی ٹی آئی یا اکیلی حکومت اس سے نہیں لڑ سکتی، اسی سلسلے میں وزیراعظم نے تمام وفاقی اکائیوں کو ایک طرح دیکھا اور انہیں مساوی طور پر شامل کیا۔

بات کو آگے بڑھاتے ہوئے شبلی فراز کا کہنا تھا کہ ہسپتالوں کو سامان فراہم کیا گیا، اس کے علاوہ تمام طبی سامان تمام صوبوں کو فراہم کیا کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایسی جنگ ہے جسے مل کر ہی شکست دی جاسکتی ہے۔

'مسلم لیگ (ن) کو آن بورڈ لینے کے لیے اجلاس طلب کیا گیا'

اپوزیشن کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسی دوران اپوزیشن خاص طور پر مسلم لیگ (ن) نے پارلیمنٹ کا اجلاس بلوایا۔

شبلی فراز کا یہ بھی کہنا تھا کہ چونکہ مسلم لیگ (ن) کی کسی صوبے میں نمائندگی نہیں تھی اور وہ آن بورڈ نہیں تھی تو ہم نے انہیں موقع دیا کہ وہ بھی پارلیمنٹ میں آکر تجاویز دیں۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ ہوا یہ کہ جنہوں نے اجلاس بلایا تھا قائد حزب اختلاف شہباز شریف وہ خود قومی اسمبلی اجلاس سے غیرحاضر رہے۔

انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں وہی تقاریر ہوئیں جو پریس کانفرنس میں کی جاتی تھیں جبکہ شہباز شریف کا اس اجلاس میں شرکت نہ کرنا اس بات کی غمازی ہے کہ اشرافیہ کی ذہنیت (ایلیٹ مائنڈ سیٹ) برسرپیکار ہے، وہ نہیں سمجھتے تھے کہ ان کی صحت ان کو اجازت دیتی ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں آکر خود کو خطرے میں ڈالیں کیونکہ باقی پارلیمنٹیرینز اور پاکستان مسلم لیگ(ن) کی زندگی اہم نہیں ہے جبکہ ان کی اپنی پارٹی کے بیمار رکن بھی اس اجلاس میں شریک ہوئے۔

مزید پڑھیں:سندھ میں کورونا کیسز بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی بات غیرذمہ دارانہ ہے، اسد عمر

وزیراطلاعات کا کہنا تھا کہ یہ چیز اس پارٹی کے کلچر کو ظاہر کرتی ہے کہ اپنے لیے کچھ اور اپنی پارٹی کے لیے کچھ، یہ جب بیمار ہوتے ہیں تو لندن چلے جاتے ہیں۔

اپنی جماعت کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دوسری جانب ہماری قیادت ہے، وزیراعظم عمران خان 30 فٹ سے نیچے گرے اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ ایک بین الاقوامی شخصیت ہیں، ان کے لیے سب انتظام ہوسکتا ہے انہوں نے اپنے بنائے ہوئے ہسپتال میں علاج کو ترجیح دی، یہ ہوتا ہے ایک لیڈر کا عزم اور عوام سے وابستگی۔

اپوزیشن جماعت پر تنقید میں شبلی فراز کا کہنا تھا کہ ہم نے تو یہی دیکھا ہے کہ یہ اقتدار میں ہوتے ہیں یا باہر ہوتے ہیں۔

وزیراطلاعات نے اپوزیشن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم نااہل ہیں تو اس پر میرے ان سے 2، 3سوالات ہیں، کیا قومی اداروں کو طاقت ور بنانا نااہلی ہے؟، کیا احتساب کے عمل کو آگے بڑھانا یا غریبوں کو ریلیف دینا نااہلی ہے؟

انہوں نے کہا کہ جو کرپٹ اور نااہل تھے انہیں عوام نے 2018 میں ہی مسترد کرکے نااہل ثابت کردیا تھا۔

'دوسرے وائرس کا علاج دریافت ہو چکا ہے'

دوسرے وائرس کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک میں دوسرے وائرس کا اینٹی ڈوٹ دریافت ہوچکا ہے جس کا نام عمران خان ہے لہٰذا ہمیں گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اسے عمران خان ہی ختم کرے گا، یہ وائرس عوام کے خون کو چوستا ہے، آپ کے ملک کی بنیادیں کمزور کرتا ہے اور ملک کو قرضوں میں ڈبوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایون فیلڈ یا اس طرح کی کھربوں کی جائیدادیں، شہباز شریف اینڈ سنز پرائیویٹ لمیٹڈ اس وائرس کا سب سے بڑا شیئر ہولڈر ہے، انہوں نے ایک بڑے منظم طریقے سے ملک کے وسائل کو پامال کیا اور اپنے لیے ایک دوسری دنیا بسائی جس کا پاکستان کے عوام اور غریبوں سے کوئی تعلق نہیں۔

شبلی فراز نے کہا کہ خدانخواستہ یہ ملک اگر اجڑتا ہے تو انہوں نے اپنے لیے ایک دوسری دنیا آباد رکھی ہے، جس میں ان کے بھائی، بیٹے، بھتیجے اور یہ خود واپس جانا چاہتے ہیں لیکن ایسا ہونے والا نہیں ہے۔

شہباز شریف جن فرشتوں کو دودھ بیچتے تھے وہ سامنے آگئے، شہزاد اکبر

دوسری جانب وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا کہ 'شبلی فراز نے جس دوسرے وائرس کا ذکر کیا ہے اس کانام کرپشن ہے، جو اس ملک میں شاید شروع سے لگ گیا تھا لیکن گزشتہ 30 برس میں بہت شدت سے لگا ہوا تھا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'گزشتہ پریس کانفرنس میں جن مخصوص چیزوں کا ذکر کیا، جس میں ایک نئے کمپنی جس میں شہباز شریف کے براہ راست کک بیکس اور کرپشن کا ذکر بھی تھا اس پر 3 روز گزرنے کے باوجود خود شہباز شریف کی طرف سے جواب نہیں آیا'۔

انہوں نے شہباز شریف کے حوالے سے کہا کہ 'وہ اس وقت قرنطینہ در قرنطینہ میں چلے گئے ہیں، پہلے ہی وہ آئسولیشن میں تھے اور اب مزید آئسولیشن میں چلے گئے ہیں'۔

یہ بھی پڑھیں:’شہباز شریف کے ملازمین کے نام پر بنی کمپنیوں سے اربوں روپے کی ٹرانزیکشنز کے ثبوت ملے ہیں‘

شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ شہباز شریف نے اپنے چند حواریوں کو بھیجا جن میں بدقسمتی سے ایک سابق وزیراعظم بھی ہیں جنہوں نے رخ کو موڑنے کی کوشش کی، میرے خیال میں اپوزیشن کی دو پہلوؤں کی بنیاد پر حکمت عملی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ پہلی حکمت عملی اپنائی کہ اسمبلی اجلاس میں کووڈ-19 پر حکومتی اقدامات پر براہ راست تنقید شروع کی اور بے بنیاد تقاریر کیں اور بار بار کہتے رہے کہ آپ کی حکمت عملی کیا ہے جبکہ اٹھارویں ترامیم کے مطابق این سی او سی اور این سی سی میں ملک کی تمام نمائندگی تھی اور حکومتیں آئینی تقاضوں کے مطابق کام کررہی ہیں۔

معاون خصوصی کے مطابق پاکستان کی کوششوں کو عالمی ادارہ صحت بھی سراہتا ہے لیکن اس کے باوجود ان کی توجہ ہٹانے کی حکمت عملی ناکام ہوگئی، ساتھ ہی انہوں نے کہا دوسری حکمت عملی شہزاد اکبر کو تنقید کا نشانہ بنانا تھا۔

شہباز شریف سے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شہباز شریف جن فرشتوں کو اپنی چند بھینسوں کا قیمتی اور نایاب دودھ کروڑوں میں فروخت کرتے تھے وہ فرشتے منظر عام پر آچکے ہیں اور اصل درد، ان فرشتوں کا سامنے آنا ہے۔

مزید پڑھیں:شہزاد اکبر کا شہباز شریف سے 18 سوالات کے جواب دینے کا مطالبہ

ان کا کہنا تھا کہ 'اسی لیے بار بار سوال کرتے ہیں کہ شہزاد اکبر کون ہے، کہاں سے آیا ہے اور کیسے تحقیق کرسکتا ہے، جب چوری پکڑی جائے تو یہ کہنا کہ پہلے یہ بتاؤ تم کون ہو اور چوری کیسے پکڑی جیسی باتیں کرنا کوئی جواب نہیں ہے'۔

معاون خصوصی نے کہا کہ آپ عوامی نمائندے ہیں، عدالت میں عام ملزم کی طرح پیش ہوں گے لیکن اس سے پہلے عوام کے سامنے جواب دہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مریم اورنگزیب کی بھی ڈیوٹی لگ جاتی ہے اور ان سوالوں کا جواب دینے کی کوشش کرتی ہیں جن کا جواب نہیں ہے لیکن میں ان کے ایک سوال کا جواب دینا چاہوں گا۔

مریم اورنگزیب کا سوال دہراتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کک بیکس سے شہباز شریف کا تعلق ثابت کریں جس کی ایک مماثلت ہے جبکہ آصف زرداری نے مشہور اینکر کے شومیں کہا تھا کہ ان کو ثابت کرنا پڑے گا کہ میں فالودے والے کو بینک لے کرگیا، یہ بات ان کی قدر مشترک ہے۔

انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے نیب کا وہ قانون جو 1997میں آپ کے دور میں احتساب بیورو ایکٹ بنا جو بعد میں 1999 میں چند ترامیم کے ساتھ نیب آرڈیننس کی صورت میں سامنے آیا، یہ دونوں سیکشنز ایک ہی تھے جن کے تحت بارثبوت آپ پر ہے۔

'کک بیکس کا بار ثبوت شہباز شریف پر ہے'

ان کا کہنا تھا کہ جن 16 کروڑ کے کک بیکس کا ذکر میں کررہا ہوں اس کا بارثبوت شہباز شریف کے اوپر ہے، اس کے باوجود ان ٹرانزکشز کی پوری ٹریل موجود ہے کیونکہ قانون کے مطابق ایک اکاؤنٹ میں کیش کی صورت 2 ملین جمع ہوتے ہیں تو ایک سی ٹی آر جمع ہوتی ہے جس کو کیش ٹرانزیکش رپورٹ کہتے ہیں اور اس میں کیش جمع کرانے والے کا نام، مقصد اور پوری تفصیلات جمع کرانی پڑتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:شہزاد اکبر کا شہباز شریف کے خلاف ثبوت منظر عام پر لانے کا عندیہ

شہزاد اکبر نے کہا کہ جب اداروں کا آزاد کیا جاتا ہے تو سسٹم کے تحت یہ سی ٹی آر خود جواب دیتی ہیں، تمام شواہد آپ کے سامنے موجود ہیں جبکہ نیب کا ریفرنس اختتامی مراحل میں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ خبریں آئی ہیں کہ نیب ریفرنس تیار ہوچکا ہے اور فائل ہوگا اسی لیے ان کو پریشانی لاحق ہے کہ عید بھی آرہی ہے اور نیب کا ریفرنس بھی تیار ہے۔

انہوں نے کہا کہ شہباز شریف سے ایک جواب یہ چاہیے کہ تین ٹرانزیکشنز جو مسرور نامی شخص نے 49 لاکھ کی دسمبر 2012 میں کی، پھر یہ کہ خان ٹریڈر نامی کمپنی جو رمضان شوگر کے ملازم شکیل کے والد گلزارخان کے نام پر ہے جبکہ شریف گروپ میں مسرور انور کیش بوائے ہے جو ای او بی آئی کے مطابق ان کے پاس 12 یا 13 سال سے مستقل ملازم ہے۔

انہوں نے کہا کہ مسرور انور ہی خان ٹریڈرز کے اکاؤئنٹ سے کیش نکالتا ہے، 49 لاکھ اور پھر 5 دسمبر کو دوبارہ 49 لاکھ جبکہ 17 دسمبر کو 34 لاکھ روپے نکالتا ہے اور 18 دسمبر کوشہباز شریف کے ذاتی اکاؤنٹ میں ایک کروڑ 7 لاکھ روپے جمع کرواتا ہے۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ 25 جون 2012 کو خان ٹریڈرز نے ایک کروڑ کی ٹرانزیکشن کی اور اسی دن مسرور انور شہباز شریف کے نیومسلم ٹاؤن لاہور کے اکاؤنٹ میں جمع کرادیتا ہے، اس کا بھی جواب دے دیں۔

انہوں نے کہا کہ نثار ٹریڈنگ ان کے ملازم راشد کرامت کے نام پر بنائی گئی کمپنی ہے جس میں کک بیکس اور کمیشن کے ڈیولپرز سے آئے پیسے صاف نظر آتے ہیں۔

شہباز شریف پر الزامات دہراتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ستمبر 2014 میں 49 لاکھ، 99 لاکھ اور 49 لاکھ کی رقم واپس نکالی جاتی ہے پھر مسرور انور ایک کروڑ 90 لاکھ روپے شہباز شریف کے نیو مسلم ٹاؤن میں ایچ بی ایل کے اکاؤنٹ میں کیش کی صورت میں جمع کرادیتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پھر خان ٹریڈرز سے ہی مارچ اور اپریل میں 5 سے 6 ٹرانزیکشنز ہوتی ہیں جو 10،10 لاکھ کی ہوتی ہیں اور 2015 کے بعد ٹرانزیکشنزکا حجم کم ہوجاتا ہے کیونکہ پاکستان کے قوانین میں کچھ مزید سختی بھی آگئی تھی اور عالمی سطح پر، ایف اے ٹی ایف کا بھی دباؤ تھا۔

انہوں نے کہا کہ مسرور انور 4 ٹرانزیکشنز میں خان ٹریڈرز سے پیسے نکالتے ہیں اور 50 لاکھ روپے شہباز شریف کے نیومسلم ٹاؤن میں ذاتی اکاؤنٹ میں جمع کراتے ہیں۔

مزید پڑھیں:بلاول ’ان ٹچ‘ نہیں کہ کوئی ادارہ انہیں طلب نہیں کرسکتا، شہزاد اکبر

معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ 2015 کے اگلے ماہ 4 ٹرانزیکشنز ہوتی ہیں جس میں 2 لاکھ،24 لاکھ، 10 لاکھ اور 49 لاکھ کی مختلف ٹرانزیکشنز کے ذریعے پیسے نکالے جاتے ہیں اور 20 ملین روپے جمع کروائے جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ شہباز شریف کی طرف سے ان پیسوں سے ڈی ایچ اے لاہور میں ایک جائیداد خریدی جاتی ہے، پھر اپریل 2017 میں مسرور انور نے نثار گل اور ملک علی احمد کی کمپنی گڈ نیچر کے اکاؤنٹ سے پیسے نکالے اور یہ دونوں افراد وزیراعلیٰ پنجاب کے سیاسی امور کے ڈائریکٹر اور دوسرے سیاسی حکمت عملی کے ڈائریکٹر تھے اور ان کو ٹیکس کے پیسوں سے تنخواہ دی جاتی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ لوگ وزیراعلیٰ ہاؤس لاہور میں بیٹھ کر یہ کام کرتے تھے کہ ان کے اکاؤنٹس میں پیسےجمع ہوتے تھے اور 6 سے 7 ارب کی ٹرانزیکشن ہوئی جبکہ مسرور انور کچھ دن بعد 12 ملین واپس نکال لیتا اور شہباز شریف کے ذاتی اکاؤنٹ میں جمع کروادیتا۔

انہوں نے کہا کہ ایک ٹھیکیدار سے مسرور انور نے 3 چیک کیش کروائے، جس کی سی ٹی آر بن جاتی ہے اور ریکارڈ سامنے آتا ہے جبکہ دو دن کے وقفے سے 10 ملین کی ایک اور 4.7 ملین کی دوسری ٹرانزیکشن نیو مسلم ٹاؤن کے اکاؤنٹ میں جمع کروائی جاتی ہے۔

'شہباز شریف کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا جائے'

شہزاد اکبر نے کہا کہ ان پیسوں سے شان وشوکت کے ساتھ مارگلہ ہلز کے اوپر 2 یا تین ولاز خرید کر اپنی بیگم کو تحفہ کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مسرور انور اس وقت نیب کی حراست میں ہیں اور مختلف بیانات بھی دے چکے ہیں، تین چار مرلے کے گھر میں رہنے والا یہ مسرور انور یا تو کروڑ ہا پتی آدمی ہے اور اتنا درویش ہے کہ آپ کے اکاؤنٹ میں جمع کروادیتا ہے یا پھر کیش بوائے ہے۔

مریم اورنگزیب کو مخاطب کرکے انہوں نے کہا کہ اب جواب دینا ان کا کام ہے کیونکہ شہباز شریف صاحب خود جواب نہیں دیتے۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ یہ تمام ثبوت موجود ہیں جو نیب ریفرنس کا حصہ بنیں گے اور آپ کواس کا جواب دینا پڑے گا۔

معاون خصوصی نے کہا کہ شہباز شریف کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا جائے اور انہیں برطانیہ جانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہاں کورونا وائرس کی وجہ سے معاملات زیادہ خراب ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں