کورونا کیخلاف ناقص انتظام: لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے آئی سی یو کی سربراہ مستعفی

اپ ڈیٹ 16 مئ 2020
ڈاکٹر عائشہ مفتی کے مطابق طبی معاملات پر غیر متعلقہ لوگوں کی جانب سے احکامات دیے گئے جنہیں اس حوالے سے کوئی معلومات نہیں تھی—فوٹو: فیس بک
ڈاکٹر عائشہ مفتی کے مطابق طبی معاملات پر غیر متعلقہ لوگوں کی جانب سے احکامات دیے گئے جنہیں اس حوالے سے کوئی معلومات نہیں تھی—فوٹو: فیس بک

پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے انتہائی نگہداشت یونٹ کی سربراہ ڈاکٹر عائشہ مفتی نے انتہائی تشویشناک مریضوں کے علاج کے لیے ناتجربہ کار اور ناکافی عملے کی تعیناتی کے ذریعے کورونا وائرس کے مریضوں کی دیکھ بھال کا پلان تیار کرنے میں انتظامیہ کی ناکامی کے باعث استعفیٰ دے دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر عائشہ مفتی نے میڈیکل ٹیچنگ انسٹیٹیوشنز ریفارمز ایکٹ(ایم ٹی آئی آر اے) 2015 بنانے والی طاقتوں کے خلاف وہسل بلور کے طور پر کام کیا ہے۔

ایم ٹی آئی آر اے کے تحت ٹیچنگ ہسپتال محکمہ صحت کے بجائے بورڈ آف گورنرز کی جانب سےچلائے جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ انتہائی نگہداشت یونٹ (آئی سی یو) کی انچارج ہونے کی حیثیت سے انہیں طبی معاملات پر غیر متعلقہ لوگوں کی جانب سے احکامات دیے گئے تھے جنہیں اس حوالے سے کوئی معلومات نہیں تھیں۔

مزید پڑھیں: پشاور: لیڈی ریڈنگ ہسپتال سے کورونا کے 33 مریض ڈسچارج

ڈاکٹر عائشہ مفتی نے تقریباً ایک سال قبل لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں ملازمت شروع کی تھی اور انتہائی نگہداشت یونٹ کو خاص طور پر کورونا وائرس کے آغاز کے بعد سے بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوئیں لیکن انتظامیہ کے نامناسب رویے کی وجہ سے انہوں نے ملازمت چھوڑنے کا انتہائی قدم اٹھایا۔

پشاور کے ہسپتالوں کے نامور کنسلٹنٹس میں اس حوالے سے اتفاق رائے ہے کہ ایم ٹی آئی آر اے 2015 نے صوبے کے نظام صحت کو تباہ کردیا ہے، جس کے بعد خود مختار میڈیکل انسٹیٹیوشنز میں حکومت کی جانب سے کوئی نگرانی یا جانچ پڑتال نہیں کی جارہی اور ہسپتالوں میں ایک بھی سوال پوچھے بغیر اربوں روپے جارہے ہیں۔

ڈان کے پاس موجود اعداد و شمار کے مطابق خیبرپختونخوا میں کورونا سے ہونے والی 291 اموات میں سے 172 پشاور کے 3 میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیوٹ (ایم ٹی آئی) میں رپورٹ ہوئیں جن میں سے لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں 128 اموات ہوئیں۔

ان ایم ٹی آئی سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ کوئی معیاری علاج اور کلینکل پروٹوکول موجود نہیں اور ہر ایم ٹی آئی اپنے طریقہ کار پر عمل کررہا ہے۔

تاہم اکتوبر 2019 میں ایک ترمیم کے ذریعے ایم ٹی آئی آر اے 2015 میں تمام ایم ٹی آئز کے علاج کے طریقہ کار سمیت یکساں ہدایات متعارف کروانے اور پالیسی بورڈ تشکیل دینے کے لیے ایک شق شامل کی گئی تھی۔

ایم ٹی آئی ایکٹ تیار کرنے والے اور اس کے چیئرمین پروفیسر نوشیرواں برکی عالمی وبا کے آغاز سے امریکا میں ہیں جس کے نتیجے میں بورڈ کا کوئی اجلاس نہیں ہوا۔

مذکورہ صورتحال سے واقف لوگ کہتے ہیں کہ نوشیرواں برکی ایم ٹی آئز کی خودمختاری کی حفاظت کرتے ہیں جو نیک نیتی سے دی گئی تجاویز بھی نہیں سنتے اور وزیراعظم سے قریبی تعلق کی وجہ سے عہدیداران ان سے بحث سے گریز کرتے ہیں۔

ادھر سینئر ماہرین طب کا کہنا ہے کہ عالمی وبا کے لیے تمام ایم ٹی آئز اپنا طریقہ استعمال کررہے ہیں جو کئی جانوں کے نقصان کی وجہ بن رہا ہے جن میں سے کئی کو معیاری ہدایات کی موجودگی میں بچایا جاسکتا تھا۔

ڈاکٹر عائشہ مفتی کے ساتھی کہتے ہیں کہ اس صورتحال کی وجہ سے وہ ایک روز ایسا کرنے پر مجبور ہوئیں۔

انہوں نے اپنے استعفے میں لکھا کہ ہسپتال کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے بالکل تیار نہیں تھا کیونکہ کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی تھی، اگر تھی تو آئی سی یو اور اینیستھیزیا کو کبھی بھی آگاہ نہیں کیا گیا تھا کیونکہ انہیں ہسپتال کا اہم حصہ نہیں سمجھا گیا۔

ڈاکٹر عائشہ مفتی نے 14 مئی کو دیے گئے استعفے میں لکھا کہ ہم حیران رہ گئے تھے جب کورونا وائرس کے ایک مریض کو پرانے وینٹی لیٹر کے ذریعے علاج فراہم کرنے کا حکم دیا گیا جہاں کوئی سہولیات نہیں تھیں جو لازمی طور پر تباہی کا باعث بنا۔

یہ بھی پڑھیں: پشاور: لیڈی ریڈنگ ہسپتال کی 2خواتین ڈاکٹرز کورونا سے متاثر

انتہائی نگہداشت یونٹ کی سربراہ جن کے پاس 2 پوسٹ گریجویٹ فیلوشپس ہیں انہوں نے کہا کہ کووڈ 19 منیجمنٹ کے آغاز کے اگلے روز ہی انہیں فوری طور پر 2 آئی سی یوز خالی کرنے کا حکم دیا گیا اور مریضوں کو تجربہ کار اور تربیت یافتہ عملے کے ساتھ منتقل کیا گیا جبکہ ان سمیت میڈیکل افسران اکیلے رہ گئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ اینستھیزیا ڈیپارٹمنٹ نے تعاون کیا جنہوں نے کورونا وائرس کے خلاف فرنٹ لائن فائٹرز کے طور پر کام کیا، اس کے ساتھ ساتھ ہسپتال کو پی پی ایز پہننے، مریضوں کو پہنچانے سے متعلق ہدایات بھی دیں۔

ڈاکٹر عائشہ مفتی نے کہا کہ ابتدائی طور پر 5 مریض صحتیاب ہوگئے تھے لیکن بعدازاں آئی سی یو میں ناقص دیکھ بھال، غیر صحتمند حالات کے باعث شرح اموات بڑھتی گئی۔

انہوں نے اس حوالے سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن ایل آر ایچ کے ڈین پروفیسر لطیف خان نے صورتحال کا پتہ لگانے کے بجائے نرسنگ ڈائریکٹر کی شکایت پر ان سے معمولی مسائل پر وضاحت طلب کی۔

ڈاکٹر عائشہ نے مزید کہا کہ ہائی ڈیپنڈنسی یونٹ(ایچ ڈی یو) میں نان-انویسو وینٹی لیشن (این آئی وی) اور ہائی فلو نیزل کینولا (ایچ ایف این سی) کی ضرورت سے متعلق ہماری بارہا درخواستوں کو نہیں سنا گیا۔

ان کے بقول ایچ ڈی یو کا بنیادی مقصد کم نوعیت کے تشویش ناک مریضوں کی دیکھ بھال تھا لیکن ایچ ڈی یو کو این آئی وی اور ایچ ایف این سی کی کمی کی وجہ سے آئی سی یو کہا جاتا جس کی وجہ سے مریضوں کی حالت بگڑتی چلی گئی۔

انہوں نے کہا کہ مریضوں کی تعداد زیادہ تھی جبکہ ہمارے پاس آئی سی یو میں صرف 6 کنسلٹنٹس تھے اور انتظامیہ جانتی تھی کہ یہ ہماری زیادہ سے زیادہ صلاحیت ہے جس کے بعد تھوریسک یونٹ میں دوسرا آئی سی یو کھولا گیا لیکن تھوریسک یونٹ نے ذمہ داری لینے سے انکار کردیا۔

ڈاکٹر عائشہ مفتی نے کہا کہ مجھے اب تک سمجھ نہیں آرہی کہ ایک ٹیم جو تھوریسک آئی سی یو سنبھالنے کی اہلیت نہیں رکھتی تھی وہ الائیڈ بلڈنگ کا آئی سی یو چلانے کے لیے کیسے اہل ہے اور جو ٹیم کووڈ-19 تھوریسک آئی سی یو نہیں چلاسکتی کیا اسے الائیڈ بلڈنگ آئی سی یو چلانے کی اجازت دینی چاہیے۔

ذرائع نے دعویٰ کیا کہ ڈاکٹر عائشہ پر استعفیٰ واپس لینے کے لیے دباؤ ڈالا جارہا ہے۔

تاہم اس حوالے سے ان سے رابطے کی بارہا کوشش کی گئی لیکن ڈاکٹر عائشہ مفتی سے رابطہ نہیں ہوسکا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں