پاکستان اسٹیل ملز کی ’جان بوجھ کر تباہی‘ کی تحقیقات کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 18 مئ 2020
وزارت خزانہ کی جانب سے پاکستان اسٹیل ملز کے سابقہ ملازمین کو ریٹائرمنٹ واجبات کی جزوی ادائیگی کی مد میں 1.3 ارب روپے ادا کیے گئے ہیں — رائٹرز:فائل فوٹو
وزارت خزانہ کی جانب سے پاکستان اسٹیل ملز کے سابقہ ملازمین کو ریٹائرمنٹ واجبات کی جزوی ادائیگی کی مد میں 1.3 ارب روپے ادا کیے گئے ہیں — رائٹرز:فائل فوٹو

اسلام آباد: جہاں وزارت خزانہ کی جانب سے پاکستان اسٹیل ملز کے سابقہ ملازمین کو ریٹائرمنٹ واجبات کی جزوی ادائیگی کی مد میں ایک ارب 30 کروڑ روپے ادا کیے گئے وہیں سپلائرز گروپ، ڈیلروں، ٹھیکیداروں اور پنشنرز کے گروپ نے پاکستان اسٹیل ملز کو ‘جان بوجھ کر تباہ‘ کرنے کے حوالے سے تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل دینے کا مطالبہ کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک سینئر سرکاری عہدیدار نے ڈان کو تصدیق کی کہ ’عدالتی حکم کی تعمیل میں گزشتہ ہفتے کے آخری کاروباری دن ایک ارب 30 کروڑ روپے اسٹیل ملز کو منتقل کیے گئے‘۔

ڈان کی نظر سے گزرنے والے 15 مئی کو جاری کردہ ایک نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ صدر پاکستان نے 22 اپریل 2020 کے ای سی سی کے فیصلے کے تحت پاکستان اسٹیل ملز کے ریٹائرڈ ملازمین کو جزوی ادائیگی کے لیے 1.3 ارب روپے جاری کرنے کی منظوری دی تھی۔

یہ قرض 20 سال میں سود کے ساتھ واپس ہوگا جبکہ اس کے لیے 5 سال کی اضافی مدت بھی رکھی گئی ہے۔

مزید پڑھیں: آئل ریفائنریز، کمپنیوں کو ایندھن کی فراہمی میں اضافے کی ہدایت

اصل رقم کی وصولی کے لیے سود متعلقہ سال کی دی گئی شرح سے وصول ہوگی۔

گزشتہ ہفتے ای سی سی نے 9 ہزار 350 اسٹاف میں 8 ہزار ملازمین کے لیے 18 کروڑ 70 لاکھ روپے جاری کرنے کے منصوبے کو واپس کردیا تھا اور ہدایت دی تھی کہ زیادہ سے زیادہ اسٹاف کو اس میں شامل کیا جائے۔

نظر ثانی کے بعد اب اس کی لاگت 20 ارب روپے سے زائد ہوجائے گی۔

اس حوالے سے متعدد اسٹیک ہولڈرز میں تشویش پیدا ہوئی ہے کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ حکومت ان کے 85 ارب روپے کے واجبات ادا کیے بغیر ملز سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان کو لکھے گئے خط میں اسٹیل ملز کے اسٹیک ہولڈرز گروپ کا کہنا تھا کہ انہوں نے وفاقی بورڈ آف ریونیو کے لیے 150 ارب روپے اکٹھا کرنے کا ایک قابل عمل منصوبہ تیار کیا ہے، 200 ارب روپے کے واجبات ادا کریں اور ملز کو اس کی تکنیکی انتظامیہ کے ساتھ بحال کریں تاہم وزارتیں ملز کی بحالی اور واجبات پر تصفیے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

اسٹیک ہولڈرز گروپ نے وزیر اعظم عمران خان سے ٹیکنو فنانس تحقیقاتی کمیٹی قائم کرنے کا کہا تاکہ ملز کو بند کیے جانے کے پیچھے وجوہات جان سکیں۔

یہ بھی پڑھیں: ای سی سی نے مزدوروں، یومیہ اجرت والوں کیلئے 75 ارب روپے مختص کردیے

انہوں نے احتجاج کیا کہ میکینکل، انجینیئرنگ اورر صنعتی کمپلیکس کے حوالے سے تمام امور اور فیصلے ایڈ ہاک انتظامیہ، غیر تکنیکی افراد کی جانب سے کیے جارہے ہیں اور مسئلے کو دیکھنے اور بہتر راستہ بتانے کے لیے وزارت صنعت، خزانہ اور نجکاری میں بھی کوئی ماہر بھی موجود نہیں ہے۔

گروپ کا کہنا تھا کہ ای سی سی نے پاکستان اسٹیل ملز اور اس کے ریٹائرڈ ملازمین کے واجبات کو کورونا وائرس کی وبا کے اثرات کے حوالے سے وزیر اعظم کے نجی صنعت اور ورکرز کے لیے ریلیف پیکج میں نظر انداز کیا۔

پاکستان اسٹیل ملز اور اس کے اسٹیک ہولڈرز (ملازمین، موجودہ اور ریٹائرڈ، کنٹریکٹرز، ڈیلرز اور سپلائرز) ملز کی بحالی اور ان کے 85 ارب روپے کے قانونی واجبات کی ادائیگی یا تصفیے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ حکومت نے اسٹیل ملز کی نجکاری کی گزشتہ دو ناکام کوششوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور ملوں کی بحالی کے لیے ‘پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ‘ روڈ میپ اختیار کیا جو نقصانات میں اضافے اور قابل ادائیگی کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک اور ’مالی تباہی کا راستہ‘ تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں