مقبوضہ جموں و کشمیر میں بچوں کو کووڈ-19 سے نفسیاتی مسائل کا سامنا

اپ ڈیٹ 15 جون 2020
مقبوضہ کشمیر میں بچوں کے مسائل کے 300 کیسز سامنے آئے—فوٹو:بشکریہ اناطولو
مقبوضہ کشمیر میں بچوں کے مسائل کے 300 کیسز سامنے آئے—فوٹو:بشکریہ اناطولو

مقبوضہ جموں و کشمیر میں کووڈ-19 سے بچوں کو نفسیاتی مسائل کا سامنا ہے جہاں اب تک بچوں کے مسائل کے 300 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔

ترک خبر ایجنسی 'انادولو 'کی رپورٹ کے مطابق بھارت کے زیر تسلط کشمیر میں کورونا کی وبا کے ساتھ ساتھ بچوں میں نفسیاتی مسائل بھی بڑھ رہے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق جنوبی اننت ناگ ضلع میں 14 سالہ لڑکا مسائل کا شکار تھا جن کی حالت کووڈ-19 کے بعد مزید بگڑ گئی ہے۔

مزید پڑھیں:وزیر خارجہ کا کورونا کیسز کے باوجود مقبوضہ کشمیر میں بندشوں پر گہری تشویش کا اظہار

خیال رہے کہ مقبوضہ وادی میں اب تک 4 ہزار 500 کورونا وائرس کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ 19 افراد ہلاک ہوئے۔

ماہر نفسیات فرحانہ یاسین کا کہنا تھا کہ 'بچے میں وائرس سے متاثر ہونے کی سوچ جنم لے رہی ہے جس کے باعث ڈپریشن کا سامنا کرنا پڑتا ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'وائرس کے خوف سے وہ اپنے ہاتھوں کو مسلسل دھوتا رہتا تھا اور وبا سے متعلق خبریں دیکھتا تھا'۔

رپورٹ کے مطابق 14 سالہ لڑکا جب مارچ میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں پہلا کیس سامنے آیا تو اس خبر سے بے چین ہوگیا تھا۔

انہوں نے ہاتھ دھونے اور خبریں دیکھنے کے علاوہ خود کو آئسولیشن میں رکھا ہوا تھا لیکن سب سے زیادہ مشکل اس وقت پیش آئی جب انہیں درد ہونے لگا اور انہیں کووڈ-19 سے متاثر ہونے کا احساس ہونے لگا۔

ڈاکٹروں کی جانب سے نفسیاتی مسائل سے دوچار ہونے والے بچوں کی تعداد میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے۔

یاد رہے کہ بھارتی حکومت نے 5 اگست 2019 کو مقبوضہ خطے میں مکمل لاک ڈاؤن کردیا تھا جس کے باعث بچوں کو پہلے ہی نفسیاتی مسائل کا سامنا تھا۔

رپورٹ کے مطابق شری مہاراجا ہری ہسپتال میں یونیسیف کے زیر انتظام چلنے والے چائلڈ گائیڈنس سینٹر میں سیکڑوں بچوں کو داخل کرادیا گیا ہے۔

ماہر نفسیات فرحانہ یاسین نے کہا کہ 'جب سے کووڈ-19 شروع ہوا ہے اس وقت سے اب تک تقریباً 300 کیسز کو نفسیاتی معاملات پر علاج فراہم کیا ہے جن میں سے 90 فیصد ٹیلی فون کے ذریعے اور 10 فیصد کو براہ راست سیشنز میں مدد کی گئی'۔

ان کا کہنا تھا کہ تمام کیسز میں بچوں میں بحران اور اکثر کو کووڈ-19 کی خبریں دیکھ کر دباؤ اور ڈپریشن نے جنم لیا خاص کر وائرس سے عالمی سطح پر متاثرین اور ہلاکتوں نے زیادہ اثر ڈالا ہے۔

عالمی ادارہ صحت نے بھی بچوں کو وائرس سے متعلق خبروں سے دور رکھنے پر زور دیا تھا اور ڈپریشن اور بے چینی سے بچوں کو بچانے کے لیے ان کا زیادہ خیال رکھنے کی ہدایت کی تھی۔

مزید پڑھیں: پاکستان نے مقبوضہ کشمیر کیلئے بھارت کے نئے ڈومیسائل قانون کو مسترد کردیا

سری نگر میں قائم انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ اینڈ نیوروسائنسز کے سائیکاٹرسٹ یاسر راٹھور کا کہنا تھا کہ 'موجود وبائی صورت حال کے دوران ہم نےبچوں کے 50 فیصد سے 60 فیصد نفیساتی کیسز دیکھے ہیں جس میں بے چینی، درد کے حملے اور ڈپریشن اور خودکشی کے خیالات نے جنم لیا ہے'۔

واضح رہے کہ گزشتہ سال 5 اگست کو بھارت کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد جموں و کشمیر سول سروسز ایکٹ لاگو کیا جاچکا ہے جس کے مطابق جو وادی میں 15 سال سے مقیم ہیں وہ اپنے ڈومیسائل میں مقبوضہ علاقے کو اپنا آبائی علاقہ قرار دے سکیں گے۔

ایکٹ میں واضح کیا گیا کہ ڈومیسائل میں مقبوضہ علاقے کو اپنا آبائی علاقہ قرار دینے والے شخص کے لیے ضروری ہے کہ اس نے جموں و کشمیر کے وسطی علاقے میں 15 سال تک رہائش اختیار کی ہو یا 7 سال کی مدت تک تعلیم حاصل کی ہو یا علاقے میں واقع تعلیمی ادارے میں کلاس 10 یا 12 میں حاضر ہوا ہو اور امتحان دیے ہوں۔

اس سے قبل جموں و کشمیر کے آئین کی دفعہ 35 اے میں شہری سے متعلق تعریف درج تھی کہ وہ ہی شخص ڈومیسائل کا مستحق ہوگا جو مقبوضہ علاقے میں ریلیف اینڈ ری ہیبیلٹیشن (بحالی) کمشنر کے پاس بطور تارکین وطن رجسٹرڈ ہو۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں