طالبان کے حملوں میں ایک ہفتے میں 400 سے زائد اہلکار ہلاک ہوئے، افغان حکومت

اپ ڈیٹ 15 جون 2020
کابل میں دو مساجد کے امام قتل ہوئے تھے — فائل/فوٹو:اے ایف پی
کابل میں دو مساجد کے امام قتل ہوئے تھے — فائل/فوٹو:اے ایف پی

افغانستان کی وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران طالبان کے حملوں میں 400 سے زائد سیکیورٹی اہلکار ہلاک اور زخمی ہوگئے۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق افغان وزارت داخلہ کے ترجمان طارق آریان نے ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ 'گزشتہ ایک ہفتے کے دوران طالبان کی جانب سے افغان سیکیورٹی فورسز کے خلاف 222 حملے کیے گئے جس کے نتیجے میں 422 اہلکار ہلاک ہوئے'۔

ان کا کہنا تھا کہ افغان حکومت پر نفسیاتی دباؤ ڈالنے کے لیے طالبان مذہبی اسکالرز کو بھی نشانہ بنارہے ہیں۔

مزید پڑھیں:کابل: مسجد میں نماز جمعہ کے دوران دھماکا، امام سمیت 4 افراد جاں بحق

طارق آریان کا کہنا تھا کہ رواں ماہ کابل کی مساجد پر حملوں میں دونوں امام کو قتل کیا گیا اور یہ کام طالبان کا تھا۔

انہوں نے کہا کہ 'مذہبی اسکالرز کو نشانہ بنانا طالبان کا ہدف ہے خاص کر گزشتہ دو ہفتوں کے دوران نشانہ بنایا گیا'۔

طالبان کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ 'ان کی چھتری تلے دیگر دہشت گرد نیٹ ورک کام کر رہے ہیں'۔

خیال رہے کہ کابل میں نماز جمعہ کے دوران دھماکے میں مسجد امام سمیت 4 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔

حملے کی ذمہ داری کسی گروپ نے قبول نہیں کی تھی تاہم ایک ہفتہ قبل گرین زون میں قائم مسجد میں داعش کے حملے میں مشہور عالم کو قتل کیا گیا تھا۔

طالبان نے مساجد پر ہونے والے دونوں حملوں کی مذمت کی تھی۔

افغان قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جاوید فیصل کا کہنا تھا کہ 'طالبان نے کارروائیاں کم نہیں کی ہیں بلکہ ملک بھر میں ان کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے'۔

یہ بھی پڑھیں:کابل کے گرین زون کی مسجد میں دھماکا، امام سمیت 2 افراد جاں بحق

کونسل نے گزشتہ روز اپنے بیان میں دو ہفتوں کے دوران 89 شہریوں کی ہلاکت اور 150سے زائد کے زخمی ہونے کی ذمہ داری بھی طالبان پر عائد کردی تھی۔

قبل ازیں طالبان اور افغان حکومت کی جانب سے یہ عندیہ دیا گیا تھا کہ وہ امن مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔

افغان صدر اشرف غنی نے ایک ہفتے کے اندر طالبان کے قیدیوں کی رہائی کو مکمل کرنے کا وعدہ کیا تھا جو دہائیوں سے جنگ کا شکار ملک میں امن عمل شروع کرنے کے لیے بنیاد ہے۔

افغانستان میں امن کے لیے ہونے والے بین الافغان مذاکرات کے حوالے سے افغان صدر کے ترجمان صدیق صدیقی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'افغان حکومت نے دوحہ میں صرف پہلی ملاقات کے لیے اتفاق کیا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'تاحال براہ راست مذاکرات کے لیے مقام کا تعین نہیں ہوا ہے'۔

افغانستان کے صدارتی محل کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ افغان حکومت نے قطر میں ابتدائی طور پر بین الافغان مذاکرات شروع کرنے پر اتفاق کرلیا ہے۔

مزید پڑھیں:اشرف غنی قطر میں بین الافغان مذاکرات شروع کرنے کیلئے تیار

ان کا کہنا تھا کہ قطر میں باقاعدہ بین الافغان مذاکرات سے متعلق اب تک کوئی معاہدہ نہیں ہوا ہے۔

اشرف غنی نے طالبان سے بامعنی مذاکرات کے بعد کسی بھی معاہدے کی صورت میں نگران حکومت کی تشکیل کے امکان کو یکسر مسترد کردیا۔

افغان صدر کا کہنا تھا کہ میں سوویت یونین کے حمایت یافتہ صدر ڈاکٹر نجیب اللہ کی تاریخی غلطی کو نہیں دہراؤں گا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ڈاکٹر نجیب اللہ نے استعفے کا اعلان کرکے اپنی زندگی کی بڑی غلطی کی تھی اس لیے ہمیں اس غلطی کو دوبارہ دہرانے کے لیے نہ کہا جائے جس کے خاتمے سے ہم واقف ہیں'۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں