امریکا کی سپریم کورٹ نے ہم جنس پرست اور خواجہ سرا (ایل جی بی ٹی) ملازمین کو دفاتر پر قانون کے مطابق ہر قسم کے امیتازی سلوک سے تحفظ فراہم کرنے کا حکم دے دیا۔

واضح رہے کہ امریکا میں 2015 میں ہم جنس پرستوں کی شادی کو قانونی حیثیت دی تھی۔

مزیدپڑھیں: امریکا:ہم جنس پرستوں کے کلب میں فائرنگ، 50 ہلاک

اس ضمن میں تازہ پیش رفت کے مطابق عدالتی حکم کے مطابق ججز نے فیصلہ کیا کہ ہم جنس پرستوں اور خواجہ سراؤں کو 1968 کے شہری حقوق ایکٹ کے عنوان VII کے تحت تحفظ فراہم کیا گیا جو آجروں کو جنس کے ساتھ نسل، رنگ، قومیت اور مذہب کی بنیاد پر ملازمین کے ساتھ امتیازی سلوک کرنے سے روکتا ہے۔

خیال رہے کہ دفتر پر ہم جنس پرستوں اور خواجہ سرا ملازمین کے خلاف تعصب ملک کے بیشتر حصوں میں قانونی ہے، 28 امریکی ریاستوں میں ایل جی بی ٹی ملازمین کے ساتھ امتیازی سلوک کے خلاف جامع اقدامات نہیں ہیں۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد وفاقی قانون میں ایل جی بی ٹی ورکز کو تحفظ حاصل ہوگا۔

جارجیا اور نیویارک سے ہم جنس پرستوں کے 2 اور مشی گن سے ایک خواجہ سرا کے مقدمے میں مذکورہ فیصلہ سامنے آیا۔

یہ بھی پڑھیں: ہم جنس پرستوں کو معاشرے کا حصہ بنایا جائے، پوپ فرانسس

خیال رہے کہ مذکورہ فیصلہ کنزرویٹو پارٹی کے جسٹس نیل گورسوچ نے تحریر کیا جنہیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جج مقرر کیا تھا۔

ٹرمپ کی انتظامیہ نے قانونی چارہ جوئی میں ایل جی بی ٹی کارکنوں کی مخالفت کی تھی۔

واضح رہے کہ امریکی سپریم کورٹ نے 2015 میں ملک بھر میں ہم جنس پرستوں کو شادی کی اجازت دیتے ہوئے اسے ایک قانونی حق قرار دیا تھا۔

امریکا کی 36 ریاستوں میں پہلے ہی ہم جنس پرست جوڑوں کو شادی کی اجازت حاصل ہے اور اب عدالتی فیصلے کے بعد باقی 14 ریاستوں کو اس پر عائد پابندی ختم کرنا پڑے گی۔

اس وقت کے امریکی صدر باراک اوباما نے ٹوئٹر پر عدالتی فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے " مساوات کی جانب ایک بڑا قدم" قرار دیا تھا۔

مزید پڑھیں: ہم جنس پرستوں کو معاشرے کا حصہ بنایا جائے، پوپ فرانسس

اس کے اگلے سال ہی امریکی ریاست فلوریڈا کے جنوبی شہر اورلینڈو میں ہم جنس پرستوں کے نائٹ کلب میں فائرنگ سے 50 افراد ہلاک اور 53 زخمی ہوگئے تھے۔

سانحے پر اس کے وقت کے امریکی صدر براک اوباما نے اپنے خطاب میں متاثرہ افراد اور ان کے لواحقین سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے پولیس اور سیکیورٹی فورسز کو خراج تحسین پیش کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں