پی ٹی ایم مذکرات کیلئے تیار مگر اعتماد سازی کے اقدامات پر زور

سربراہ پی ٹی ایم منظور پشتین—فائل فوٹو: اے ایف پی
سربراہ پی ٹی ایم منظور پشتین—فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) نے اعلان کیا ہے کہ گروپ نے حکومت کی مذاکرات کی پیشکش قبول کرلی ہے لیکن اس بات پر زور دیا ہے کہ حکام کو اپنے خلوص کا مظاہرہ کرنے کے لیے پہلے اعتماد سازی کے اقدامات (سی بی ایمز) کرنے چاہئیں۔

وفاقی دارالحکومت میں دوران پریس کانفرنس پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین کا کہنا تھا کہ حکومت اعتماد کی کمی کو پورا کرنے کے لیے لازمی اقدامات اٹھائے اور یہ فریقین کے لیے ضروری ہے کہ مذاکرات شروع کرنے سے قبل اعتماد سازی کے اقدامات کیے جائیں۔

پریس کانفرنس کے دوران منظور پشتین کے ہمراہ پی ٹی ایم کے حمایت یافتہ اراکین قومی اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر بھی موجود تھے۔

منظور پشتین نے پی ٹی ایم کارکنوں کے خلاف درج کی گئی مختلف ایف آئی آر کا ذکر کیا، جس سے متعلق انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس سے مختلف لوگوں کو سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا۔

مزید پڑھیں: حکومت کی ایک مرتبہ پھر پی ٹی ایم کو مذاکرات کی پیشکش

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی ایم چمن سے سوات تک پشتونوں کو درپیش تمام مشکلات میں 'سیاہ و سفید' کی تفصیل بتانے کو تیار ہیں۔

ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آزادی اظہار اور اظہار رائے آئینی حقوق ہیں جسے چھینا نہیں جاسکتا، لہٰذا 'اگر زیادتی ہوئی تو احتجاج ہوگا'۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وزیر دفاع پرویز خٹک اور قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر نے باضابطہ طور پر مذاکرات کی پیشکش کے لیے پی ٹی ایم سے رابطہ کیا تھا۔

اس موقع پر رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے دعویٰ کیا کہ ریاست 'لوگوں کے تحفظ اور انہیں بنیادی انسانی حقوق فراہم کرنے میں' ناکام ہوگئی۔

انہوں نے کہا کہ'اسمبلی اور ایسوسی ایشن کی آزادی پر بھی پابندیاں ہیں، جب ہم عوامی جلسہ منعقد کرتے ہیں تو دہشت گردی کے الزامات کے ساتھ ایف آئی آرز درج کی جاتی ہیں'۔

محسن داوڑ نے وزیراعظم عمران خان پر القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کو 'شہید' قرار دینے پر تنقید کی اور کہا کہ حکومت اپنی ترجیحات کی وضاحت دے۔

ساتھ ہی وہ یہ بولے کہ ریاستی پالیسی میں بدلاؤ امن اور ترقی کے لیے اولین شرط ہے، مزید یہ کہ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ملک کی معیشت تباہ ہورہی ہے اور معیشت کو معمول پر لانے کے لیے امن ضروری ہے۔

رکن پارلیمنٹ نے حکومت سے تمام اسٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ لینے کا مطالبہ کیا۔

علاوہ ازیں رکن اسمبلی علی وزیر نے کہا کہ بلوچوں اور پشتونوں کو مذاکرات کے نام پر دھوکا دیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ وزیر دفاع پرویز خٹک نے حال ہی میں پی ٹی ایم کے رہنماؤں کو مذاکرات کی پیشکش کی تھی کہ وہ حکومت سے تمام متنازع معاملات پر تبادلہ خیال کریں۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی ایم رہنماؤں کی گرفتاری: 'جو ملک کا قانون توڑے گا گرفتار ہوگا'

انہوں نے ایک بیان میں کہا تھا کہ 'ہم پختون بھی اسی صوبے سے تعلق رکھتے ہیں لہٰذا ہمیں اجتماعی طور پر خیبرپختونخوا کی ترقی کے لیے کام کرنا چاہیے'۔

پرویز خٹک نے کہا تھا کہ وفاق کے زیر انتظام سابق قبائلی علاقہ جات (فاٹا) کے عوام کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے خیبرپختونخوا کے ساتھ ضم کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے افراد تعلیم، صحت اور مواصلاتی ڈھانچے کے لحاظ سے دوسروں سے پیچھے تھے، تاہم اب وقت آگیا ہے کہ رہنما کسی تنازع میں شامل ہونے کے بجائے ان کی ترقی کے لیے کام کریں۔


یہ خبر 27 جون 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں