پی ٹی ایم رہنماؤں کی گرفتاری: 'جو ملک کا قانون توڑے گا گرفتار ہوگا'

اپ ڈیٹ 30 جنوری 2020
احتجاج کرنے کا مہذب طریقہ بھی ہے لیکن یہ طریقہ غلط ہے، اعجاز شاہ — فائل فوٹو / ڈان نیوز
احتجاج کرنے کا مہذب طریقہ بھی ہے لیکن یہ طریقہ غلط ہے، اعجاز شاہ — فائل فوٹو / ڈان نیوز

وفاقی وزیر داخلہ اعجاز احمد شاہ کا کہنا ہے کہ پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) سے مذاکرات اپنی جگہ لیکن اگر کوئی ملک کا قانون توڑے گا تو اسے گرفتار کیا جائے گا۔

برطانوی نشریاتی ادارے 'بی بی سی' کی اردو سروس کو انٹرویو کے دوران اعجاز شاہ نے کہا کہ 'پشتون تحفظ موومنٹ کے لوگ پاکستانی شہری ہیں جنہوں نے ملک کا قانون توڑا ہے اسی لیے ان کو گرفتار کیا گیا۔'

انہوں نے کہا کہ 'جہاں تک پشتونوں کی بات ہے تو وہ اس حکومت کے ساتھ ہیں۔'

پی ٹی ایم سے مذاکرات کے حوالے سے وزیر داخلہ نے کہا کہ 'وزیرِ اعظم عمران خان کا موقف ہے کہ اگر آپ کسی معاملے کا حل چاہتے ہیں تو مذاکرات کی میز پر آئیں کیونکہ جنگ اور لڑائی سے کوئی معاملہ حل نہیں ہوتی، جبکہ یہی ملک اور قبائلی عوام کے لیے اچھا ہے۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'جہاں تک پشتونوں کی بات ہے تو عمران خان پشتونوں اور قبائلی علاقوں میں اپنے ضلع سے زیادہ مشہور ہیں، انہوں نے سابق قبائلی علاقوں کے انضمام اور پشتونوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے جو کیا ہے وہ کسی اور سیاسی رہنما نے نہیں کیا، تو پشتونوں کا رہنما کون ہوا منظور پشتین یا عمران خان؟'

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد: پی ٹی ایم رہنما محسن داوڑ سمیت متعدد مظاہرین گرفتار

وزیر داخلہ نے کہا کہ 'احتجاج کرنے کا مہذب طریقہ بھی ہے لیکن یہ طریقہ غلط ہے، اسلام آباد میں محسن داوڑ اور ان کے ساتھی غلط طریقے سے احتجاج کر رہے تھے، عدالتیں آزاد ہیں اور وہی مقدمے کا فیصلہ کریں گی۔'

منظور پشتین اور دیگر کی گرفتاری

واضح رہے کہ پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین کو 27 جنوری کی علی الصبح پشاور کے شاہین ٹاؤن سے گرفتار کیا گیا تھا اور انہیں 14 دن کے جوڈیشل ریمانڈ پر شہر کی سینٹرل جیل بھیج دیا تھا۔

انہیں اگلے روز ضمانت کی درخواست مسترد ہونے پر پشاور کی مقامی عدالت کے حکم پر ڈیرہ اسمٰعیل خان منتقل کردیا گیا تھا۔

پولیس کے مطابق 18 جنوری کو ڈیرہ اسمٰعیل خان میں سٹی پولیس تھانے میں پی ٹی ایم کے سربراہ کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: پی ٹی ایم کا منظور پشتین کی گرفتاری کے خلاف ملک بھر میں احتجاج کا اعلان

یہ مقدمہ تعزیرات پاکستان کی دفعات 506 (مجرمانہ دھمکیوں کے لیے سزا)، 153 اے (مختلف گروہوں کے درمیان نفرت کا فروغ)، 120 بی (مجرمانہ سازش کی سزا)، 124 (بغاوت) اور 123 اے (ملک کے قیام کی مذمت اور اس کے وقار کو تباہ کرنے کی حمایت) کے تحت درج کیا گیا۔

ایف آئی آر کی نقل کے مطابق 18 جنوری کو ڈیرہ اسمٰعیل خان میں منظور پشتین اور دیگر پی ٹی ایم رہنماؤں نے ایک جلسے میں شرکت کی جہاں پی ٹی ایم سربراہ نے مبینہ طور پر کہا کہ 1973 کا آئین بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

ایف آئی آر کے مطابق منظور پشتین نے ریاست سے متعلق مزید توہین آمیز الفاظ بھی استعمال کیے۔

منظور پشتین کی گرفتاری کے اگلے روز پی ٹی ایم رہنما و رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ اور ان کے ساتھ دیگر افراد کو اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب کے باہر سے احتجاج کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔

محسن داوڑ کو تو ایک روز بعد رہا کردیا گیا لیکن دیگر 23 افراد کو جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا۔

ایف آئی آر کی نقل کے مطابق مظاہرے میں شریک افراد کے خلاف بغاوت سمیت مختلف الزامات پر مقدمہ درج کیا گیا، تاہم اس مقدمے میں محسن داوڑ کا نام شامل نہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں