گلف سینٹر فار ہیومن رائٹس (جی سی ایچ آر) نے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کووڈ-19کے حوالے سے نئے الزامات عائد کرکے بعض خواتین سماجی کارکنوں کو عارضی رہائی نہیں دے رہا۔

دی گارجین کی رپورٹ کے مطابق انسانی حقوق کے گروپ نے کہا کہ تہران میں قید انسانی حقوق کے کارکنوں کو کووڈ-19 کی وبا کی وجہ سے عارضی طور پر رہا ہونے سے روکنے کے لیے انہیں کئی نئے الزامات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

مزیدپڑھیں: ایران: حجاب مخالف احتجاج پر سزا کاٹنے والی خواتین کی رہائی کا مطالبہ

واضح رہے کہ مارچ کے اوائل میں کووڈ 19 ایران میں تیزی سے پھیلا تھا جس کے بعد ایرانی حکام پر دباؤ بڑھا تو انہوں نے ہزاروں قیدیوں کو عارضی طور پر رہا کردیا تھا۔

رواں برس کے آغاز میں تقریباً 85 ہزار قیدیوں کو کورونا پھیلنے کی وجہ سے 'عارضی رہائی اسکیم' کے تحت رہا کیا گیا جن میں سے نصف سیاسی قیدی تھے۔

جی سی ایچ آر کے مطابق ملک بھر کی جیلوں میں تاحال درجنوں خواتین سماجی کارکنان، جنہیں 5 سال سے زیادہ قید کی سزا ملی ، وہ جیلوں میں بند ہیں۔

واضح رہے کہ پھانسی کی سزا کے خلاف مہم چلانے والی نرگس محمدی کو 2015 میں 16 برس قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

جی سی ایچ آر اور نرگس محمدی کے اہل خانہ نے بتایا کہ انہیں خدشہ ہے کہ ایرانی حکام نئے الزامات کے تحت نرگس محمدی کو مزید 5 سال قید اور 74 کوڑوں کی سزا سنادی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی پابندیوں اور عالمی وبا کے باعث ایران کیلئے مشکل ترین سال ہے، حسن روحانی

انہوں نے کہا کہ نرگس محمدی پر 'حکومت کے خلاف سازش، پروپیگنڈا اور توہین کے جرم شامل ہیں'۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی مہم کار نسیم پاپیانی نے کہا کہ حراست میں رکھے گئے افراد کو خاموش کرنے کے لیے عام طور پر نئے الزامات کا استعمال کیا جاتا ہے خاص طور پر جب انہوں نے سلاخوں کے پیچھے سے مہم چلائی ہو۔

یاد رہے کہ گزشتہ برس دوبارہ منتخب ہونے والے ایرانی صدر حسن روحانی معاشی اصلاحات اور بین الاقوامی تعلقات بڑھانے کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن ایران کے روایتی پالیسی ساز اب بھی زیادہ تر سیکیورٹی ادارے اور ریاست میں ایک مقام رکھتے ہیں، جس کی بنیاد پر وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ایران کی اصل ترجیح امریکا اور اسرائیل کی دھمکیوں سے لڑنے پر ہونی چاہیے۔

علاوہ ازیں انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا تھا کہ 2018 میں ایران میں دوران قید کم از کم 6 قیدیوں کی ہلاکت ہوئی لیکن ایرانی عدلیہ نے اس بات کی تصدیقی کی کہ دوران حراست 3 اموات ہوئی تھیں لیکن یہ تمام خودکشی تھی۔

مزیدپڑھیں: ایران: جاسوسی کے الزام میں مزید 3 ماحولیاتی رضا کار زیر حراست

خیال رہے کہ گزشتہ برس فروری میں تہران میں پولیس نے حجاب کے خلاف جاری سوشل میڈیا مہم کا حصہ بننے والی 29 خواتین کو عوامی گزرگاہ پر بغیر حجاب ہونے کی وجہ سے گرفتار کرلیا تھا۔

اس ضمن میں چیف پروسیکیوٹر محمد جعفر منتظری نے حجاب مخالف احتجاج کو ‘بچگانہ’ حرکت قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ بعض غیر ملکی عناصر ایران میں لوگوں کو ‘ورغلا’ کر انتشار کی فضا چاہتے ہیں۔

اس معاملے پر سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر سامنے آنے والی 2 تصاویر میں خواتین کو روایتی لباس میں دکھا جاسکتا تھا، جس میں انہوں نے ‘حقوقِ نسواں کی آزادی’ سے متعلق پلے کارڈز اٹھا رکھے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں