فیس بک کے بانی مارک زکربرگ نے ان قیاس آرائیوں کو مسترد کردیا ہے کہ انہوں نے امریکی صدر سے ایک معاہدہ کر رکھا ہے جس کے تحت ڈونلڈ ترمپ کو سوشل میڈیا پر اشتعال انگیز پوسٹس کی اجازت دی گئی ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق مارک زکربرگ نے کہا 'میں نے ایسی قیاس آرئیاں سنی ہیں مگر میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اس قسم کا کوئی معاہدہ نہیں ہوا، درحقیقت اس کا خیال ہی مضحکہ خیز ہے'۔

مارک زکربرگ اور امریکی صدر کے درمیان کسی قسم کی مفاہمت کا خیال گزشتہ ماہ نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے بعد سامنے آیا تھا جس میں ذرائع کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ دونلڈ ٹرمپ کو فیس بک میں ہر قسم کی پوسٹس کی آزادی ہے۔

اس خیال کو مزید تقویت اس وقت ملی جب فیس بک کی جانب سے اپنے پلیٹ فارم میں امریکی صدر کی پوسٹس پر کسی قسم کی کارروائی سے انکار کیا گیا۔

مئی میں جارج فلوئیڈ کے قتل کے بعد امریکا بھر میں احتجاجی مظاہروں کے دوران امریکی صدر کی مختلف پوسٹس کو ٹوئٹر نے تشدد بھڑکانے کے حوالے سے پالیسیوں کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے ہٹایا یا فلیگ کیا تھا، مگر مارک زکربرگ نے انہیں ہٹانے یا فلیگ کرنے سے انکار کیا تھا۔

اس فیصلے پر متعدد کمپنیوں نے فیس بک کو دیئے جانے والے اشتہارات روک دیئے تھے جبکہ کمپنی کے اپنے ملازمین نے بھی کھلے عام اس کے خلاف بات کی۔

اب نئی رپورٹ میں بتایا گیا کہ مارک زکربرگ نے گزشتہ دنوں ملازمین کے عدم اطمینان پر کوئیسٹن آنسر سیشن میں بات کی۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ گزشتہ سال اکتوبر میں ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ رات کے کھانے میں شریک تھے، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ کسی قسم کا معاہدہ تھا۔

مارک زکربرگ نے مزید کہا کہ وہ وقتاً فوقتاً ڈونلڈ ٹرمپ سے رابطے میں رہے ہیں، بالکل سابق صدر باراک اوبامہ کی طرح۔

انہوں نے ماضی میں ان واقعات کی بھی نشاندہی کی جس میں فیس بک نے اپنے پلیٹ فارم میں ڈونلڈ ٹرمپ کی پوسٹس کو ڈیلیٹ کیا اور ان ذرائع پر بھی روشنی ڈالی جس کے زیرتحت موجودہ انتطامیہ کی اسکروٹنی کی جاتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں