پی ایف یو جے کی جسٹس عیسٰی کیس کے فیصلے پر نظرِ ثانی کی درخواست

اپ ڈیٹ 29 جولائ 2020
پی ایف یو جے کے سیکریٹری جنرل ناصر زیدی کی جانب سے رشید اے رضوی نے  درخواست دائر کی—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
پی ایف یو جے کے سیکریٹری جنرل ناصر زیدی کی جانب سے رشید اے رضوی نے درخواست دائر کی—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد: پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ (پی ایف یو جے) نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی ہے جس میں انصاف، مساوات اور ضمیر کے وسیع تر مفاد میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں 19 جون کے اکثریتی فیصلے پر نظر ثانی کی استدعا کی گئی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پی ایف یو جے کے سیکریٹری جنرل ناصر زیدی کی جانب سے سینئر وکیل رشید اے رضوری نے نظرِ ثانی درخواست دائر کی۔

درخواست میں عدالت سے مختصر فیصلے کے پیراگراف نمبر 3 سے 11 کو واپس لینے کی استدعا کی گئی جس میں جسٹس قاضی فائز کی اہلیہ اور بچوں کے نام بیرونِ ملک جائیدادوں کی ٹیکس حکام سے تصدیق کروانے کو کہا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس فائز عیسیٰ کی سپریم کورٹ کے فیصلے کےخلاف نظرثانی درخواست

درخواست میں کہا گیا کہ حکومت نے حال ہی میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی چیئرپرسن کی خدمات معطل کر کے نئے چیئرپرسن کو تعینات کیا ہے تا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر کی جانے والی ایف بی آر کی تحقیقات میں مبینہ ساز باز اور منفی اثر و رسوخ ڈالا جاسکے۔

درخواست میں کہا گیا کہ حکومت کی جانب سے یہ اقدام ایف بی آر کی تحقیقات کو بری طرح متاثر کرنے کی محض ایک چال ہے۔

ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ ایک ایسے وقت میں کہ جب سپریم کورٹ نے معاملہ تحقیقات کے لیے ایف بی آر کو بھجوایا ہے اس وقت ایف بی آر میں یہ کاسمیٹک تبدیلیاں کچھ دیدہ اور نادیدہ قوتوں کی جانب سے عدلیہ کی آزادی کو سبوتاژ کرنے اور مستقل رکاوٹ ڈالنے کے ساتھ ساتھ تحقیقات پر منفی اثر ڈالنے اور ساز باز کرنے کی مشترکہ اور منظم کوشش ہے۔

پٹیشن میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ پیراگراف 3 سے 11 میں جسٹس قاضی فائز کی اہلیہ اور بچوں کے خلاف کارروائی کے سلسلے میں انکم ٹیکس حکام کو ٹائم لائن/ڈیڈ لائن دی گئی ہے۔

مزید پڑھیں: سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی جسٹس عیسٰی کیس کے فیصلے پر نظرِ ثانی کی درخواست

درخواست میں کہا گیا کہ یہ واضح طور پر غیر قانونی ہے کیوں کہ انکم ٹیکس آرڈیننس اور دیگر متعلقہ قوانین میں انکم ٹیکس آرڈیننس کی دفعہ 116 کے تحت کارروائی کرنے کے لیے ٹائم لائن/ڈیڈ لائن کے حوالے سے کوئی شق موجود نہیں ہے۔

چنانچہ اس سلسلے میں دی گئی ٹائم لائن/ڈیڈ لائن کسی قانونی بنیاد کے بغیر ہے اور اسے کالعدم قرار دینا چاہیے۔

درخواست میں یہ یاد دہانی بھی کروائی گئی کہ 19 جون کو جسٹس قاضی فائز عیسٰی کیس کے مختصر فیصلے میں صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دے دیا گیا اور سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) کی کارروائی کو روک دیا گیا۔

اس لیے ایس جے سی اس کیس میں اس مقصد کے لیے 'فنکٹس آفیشو' بن گیا ہے اور جج کے خلاف مستقبل میں کسی رپورٹ پر کوئی نوٹس نہیں لے سکتا۔

سپریم کورٹ کا فیصلہ

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے 19 جون کو جاری مختصر حکم کے ذریعے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ اور ان کے 2 بچوں ارسلان فائر عیسیٰ اور سحر عیسیٰ کی برطانیہ میں 3 آف شور جائیدادوں کی نوعیت اور فنڈنگ کے ذرائع کی وضاحت طلب کرنے کی ہدایت کی تھی۔

مذکورہ ہدایت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دینے کے تحت دی گئی تھی۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کو شواہد کے ساتھ نوٹسز کے جوابات جمع کرانے ہیں اور اگر ان میں سے کوئی ملک سے باہر ہو تویہ اس شخص کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ وقت پر جواب جمع کروائے اور کمشنر کے سامنے کارروائی کو کسی شخص کی پاکستان میں عدم موجودگی کی بنا پر ملتوی یا تاخیر کا شکار نہیں کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ بار کی جسٹس عیسیٰ کیس کے فیصلے کے پیراگرافس حذف کرنے کی درخواست

حکم نامے کے مطابق فریقین نوٹسز کے جوابات، کسی مواد اور ریکارڈ جو مناسب سمجھیں ان کے ساتھ جمع کروائیں گے، اگر ان میں سے کوئی ملک سے باہر ہو۔

جوابات موصول ہونے کمشنر مدعی کو ذاتی طور پر یا نمائندہ/وکیل کے ذریعے سماعت کا موقع دے گا اور انکم ٹیکس آرڈیننس، 2001 کے مطابق حکم جاری کرے گا۔

نوٹسز موصول ہونے کے بعد کمشنر 60 دن کے اندر سماعت مکمل کرے گا اور وصولی کے 75 دن کے اندر حکم جاری کرے گا اور مذکورہ وقت میں کوئی التوا یا توسیع نہیں ہوگی۔

کمشنر کی جانب سے احکامات جاری ہونے کے 7 روز کے اندر فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے چیئرمین سماعت سے متعلق اپنی دستخط شدہ رپورٹ اپنے سیکریٹری-سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے ذریعے سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) میں جمع کروائیں گے۔

مزید پڑھیں: جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ کی سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف نظرثانی درخواست

سیکریٹری رپورٹ کو سپریم جوڈیشل کونسل کے چیئرمین چیف جسٹس آف پاکستان کے سامنے پیش کریں گے جو مناسب انداز میں اگر درخواست گزار سے متعلق کونسل کچھ تعین کرے تو رپورٹ کو جائزے، کارروائی، حکم یا سماعت کے لیے کونسل کے سامنے پیش کریں گے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کا پس منظر

خیال رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کا معاملہ مئی 2019 کے اواخر میں سامنے آیا تھا جس میں سپریم جوڈیشل کونسل میں صدر مملکت کی جانب سے بھجوائے گئے ریفرنس میں جسٹس عیسیٰ پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے برطانیہ میں اپنی ان جائیدادوں کو چھپایا جو مبینہ طور پر ان کی بیوی اور بچوں کے نام ہیں۔

صدارتی ریفرنس میں اثاثوں کے حوالے سے مبینہ الزامات عائد کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل سے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی استدعا کی گئی تھی، ریفرنس دائر ہونے کی خبر کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر ڈاکٹر عارف علوی کو خطوط لکھے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے ایف بی آر میں تحریری جوابات جمع کرادیے

بعد ازاں 7 اگست 2019 جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خلاف صدارتی ریفرنس کو ذاتی طور پر عدالت عظمیٰ میں چیلنج کردیا اور 300 سے زائد صفحات پر مشتمل تفصیلی درخواست دائر میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ میرے خلاف ریفرنس بدنیتی پر مبنی ہے، لہٰذا عدالت سے استدعا ہے کہ درخواست پر فیصلہ آنے تک سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی روکی جائے۔

بعدازاں 19جون کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ان کی درخواست کو منظور کرلیا تھا۔

یہ معاملہ گزشتہ سال مئی سے رواں سال جون تک تقریباً 13 ماہ تک چلا تھا، جہاں سپریم کورٹ میں اس کیس کی 40 سے زیادہ سماعتیں ہوئی تھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں