گوگل دنیا بھر میں مختلف ثقافتی اور سماجی ایونٹس کے موقع پر دلچسپ ڈوڈلز تیار کرتا رہتا ہے، اتوار (13 اگست) اور پیر (14 اگست) کی درمیانی شب پاکستان کی آزادی کے 73 سال مکمل ہونے پر بھی ایک نیا ڈوڈل سامنے آیا ہے۔

عام طور پر ایک ڈوڈل کسی ملک کی ثقافت اور روایات کا عکاس ہوتا ہے اور اس بار گوگل نے پاکستان کے یوم آزادی پر کھوجک ٹنل کو اپنے ڈوڈل کا حصہ بنایا ہے جو پہلے 5 روپے کے پرانے نوٹ (جو اب بند ہوچکا ہے) کے پیچھے دیکھی ہوگی نیچے سبز رنگ کے چوکور باکس میں گوگل لکھا ہے۔

کوئٹہ کے مغرب میں 113 کلومیٹر دور واقع کھوجک ٹنل کے سامنے شیلا باغ نامی ایک قصبہ ہے۔

فوٹو بشکریہ دانیال شاہ
فوٹو بشکریہ دانیال شاہ

برطانیہ اور روس کے درمیان جاری گریٹ گیم کے دوران دونوں قوتیں اپنا اقتدار وسطی ایشیا میں پھیلانا اور اس خطے میں موجود قدرتی وسائل پر قابض ہونا چاہتی تھیں۔ 19 ویں صدی کے اواخر میں ہندوستان میں موجود برٹش راج، روس کے وسطی ایشیا میں پھیلتے اقتدار کو لے کر پریشان ہونا شروع ہو گیا تھا۔

اس بات کے ڈر سے کہ روسی افغانستان سے قندھار کے ذریعے اس خطے میں داخل ہو سکتے ہیں، برٹش نے قندھار تک ریلوے پٹریوں کا جال بچھانے کا فیصلہ کر لیا، تاکہ روسی افواج کا مقابلہ کرنے کے لیے وہ اپنی فوجوں کو وہاں بھیج سکیں۔ اس مقصد کے لیے برٹش کو مشہور 2290 میٹر بلند درہء کھوجک کو بائی پاس کرنا تھا جو کہ صدیوں سے فوجوں، تاجروں اور فاتحوں کی گزر گاہ رہا ہے۔

3.9 کلومیٹر طویل یہ سرنگ 1888 سے 1891 کے درمیان درہء کھوجک کے نیچے تعمیر کی گئی تھی اور اس سرنگ کا نام بھی اسی درے کے نام پر کھوجک ٹنل رکھا گیا۔

ریلوے پٹری کوئٹہ سے گزرتے ہوئے کھوجک سرنگ پار کرتی ہے اور پھر سیدھا پاک افغان کے سرحدی شہر چمن تک جاتی ہے۔ برٹش اس سے زیادہ آگے نہیں جا سکے۔

سرنگ کے سامنے ایک چھوٹی تختی نصب ہے جس پر اس کا نام اور اس کی تعمیری مدت کندہ ہے۔ یہ جگہ شیلا باغ قصبے میں سطح سمندر سے 1939.8 میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔ شیلا ایک پشتو لفظ ہے جس کا مطلب ہے ایک موسمی پہاڑی ندی اور باغ کا ظاہر ہے کہ باغ ہی مطلب ہے۔

شیلا باغ کو لے کر کئی مقامی قصے کہانیاں مشہور ہیں مگر ان میں کسی ایک کی بھی تصدیق نہیں کی جا سکتی، مگر مقامی لوگ ان کے پختہ دعوے کرتے ہیں۔ ان میں سے پہلی تو یہ ہے کہ اس علاقے کا نام شیلا نامی ایک رقاصہ پر رکھا گیا ہے جو کھوجک ٹنل کے تعمیری کام پر انتھک محنت کرنے والے مزدوروں کا دل بہلاتی تھی۔

دوسرا ایک خوفناک قصہ یہ بھی ہے کہ اس سرنگ کے تعمیری منصوبے کے چیف انجینیئر نے اپنے اس شاہکار کے مکمل ہونے سے پہلے خود کشی کر لی تھی۔

کوئی نہیں جانتا کیوں۔ شیلا باغ کے مقام پر ریلوے اسٹیشن کو بعد میں تعمیر کیا گیا تھا۔ وہ لوگ جنہوں نے گزشتہ سال پاکستان کی جانب سے آسکر کے لیے نامزد کی گئی فلم، مور دیکھ رکھی ہے انہوں نے اس فلم کے کچھ مناظر میں اس اسٹیشن کو ضرور دیکھا ہوگا۔

خیال رہے کہ گوگل 2011 سے پاکستان کے یوم آزادی پر ڈوڈل بنا رہا ہے، سب سے پہلے اس نے چاند ستاروں اور مینار پاکستان سے مزئین سبز رنگ کے ڈوڈل کے ذریعے مبارکباد دینے کا سلسلہ شروع کیا۔

2011 — فوٹو : اسکرین شاٹ
2011 — فوٹو : اسکرین شاٹ

اسی طرح 2012ء میں دنیا بھر میں مشہور پاکستانی ٹرک آرٹ کو گوگل ڈوڈل کے ذریعے اجاگر کیا گیا۔

2012 — فوٹو : اسکرین شاٹ
2012 — فوٹو : اسکرین شاٹ

2013 میں گوگل ڈوڈل بالکل ہی منفرد تھا جس میں دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی 'کے ٹو' کے ذریعے شمالی علاقہ جات کو دکھایا گیا اور پس منظر میں پاکستان کے قومی جانور مارخور کو دکھایا گیا جو ایک پہاڑ پر چاند ستارے کے نیچے کھڑا تھا۔

2013 — فوٹو : اسکرین شاٹ
2013 — فوٹو : اسکرین شاٹ

2014 میں گوگل کی جانب سے اسلام آباد میں واقع قومی یادگار یا پاکستان مونومنٹ کی تصویر کے ذریعے مبارکباد دی گئی۔

2014 — فوٹو : اسکرین شاٹ
2014 — فوٹو : اسکرین شاٹ

2015 کا گوگل ڈوڈل بهی پاکستان کی تاریخ کے ایک خوبصورت گوشے کی عکاسی پر مبنی تها، جس میں لاہور کے شاہی قلعے کو دکهایا گیا تھا۔

2015 — فوٹو : اسکرین شاٹ
2015 — فوٹو : اسکرین شاٹ

2016 میں گوگل نے موئن جو دڑو کے نوادرات کی تصویر کے ذریعے مبارکباد دی۔

2016 —فوٹو: اسکرین شاٹ
2016 —فوٹو: اسکرین شاٹ

2017 میں بھی گوگل نے پاکستانی پرچم کو ڈوڈل کا حصہ بنایا تھا اور پہلی بار انیمیٹڈ ڈوڈل دیا گیا۔

فوٹو بشکریہ گوگل
فوٹو بشکریہ گوگل

2018 میں بھی انیمیٹڈ ڈوڈل تیار کیا گیا تھا جس میں سبز ہلالی پرچم لہرا رہا تھا۔

اسکرین شاٹ
اسکرین شاٹ

2019 میں خیبر پاس کو اپنے ڈوڈل کا حصہ بنایا جس میں سبز ہلالی پرچم بھی موجود تھا۔

اسکرین شاٹ
اسکرین شاٹ

تبصرے (0) بند ہیں