ضمانت میں توسیع نہ ہونے کی صورت میں نواز شریف کو پیش ہونا پڑے گا، عدالت

اپ ڈیٹ 18 اگست 2020
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ اور جسٹس عامر فاروق نے 3 صفحات پرمشتمل تحریری حکم نامہ جاری کیا—فائل فوٹو: اے ایف پی
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ اور جسٹس عامر فاروق نے 3 صفحات پرمشتمل تحریری حکم نامہ جاری کیا—فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی ایک درخواست پر تحریری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ضمانت میں توسیع نہ ہونے کی صورت میں نواز شریف کو عدالت میں پیش ہونا پڑے گا۔

اس حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس عامر فاروق نے توشہ خانہ ریفرنس میں نواز شریف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کو واپس لینے سے متعلق درخواست پر 3 صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جاری کیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی جانب سے نمائندے کے ذریعے عدالت میں حاضری کی اجازت کے لیے دائر درخواست پر العزیزیہ ریفرنس کیس میں ان کی ضمانت کا جائزہ لیا۔

ابتدائی سماعت کے دوران عدالت نے نواز شریف کے وکیل بیرسٹر جہانگیر خان جدون سے ان کے مؤکل کو العزیزیہ ریفرنس میں دی گئی ضمانت کے بارے میں استفسار کیا۔

یاد رہے کہ 30 اکتوبر 2019 کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے انہیں ضمانت دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’جب تک درخواست پر (ضمانت میں توسیع کے لیے) صوبائی حکومت کا فیصلہ رہے گا وہ (نواز شریف ضمانت پر رہیں گے‘۔

تاہم حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ ’اگر درخواست گزار (نواز شریف) مقررہ مدت میں صوبائی حکومت سے رجوع نہیں کریں گے تو یہ حکم 8 ہفتوں کے بعد غیر مؤثر ہوجائے گا اور دی گئی ضمانت منسوخ ہوجائے گی۔

چنانچہ سماعت میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ ’سزا حکومت پنجاب کے تشکیل دیے گئے میڈیکل بورڈ کی رپورٹ کی بنیاد پر ایک مخصوص مدت کے لیے معطل کی گئی تھی‘، حکومت پنجاب درخواست گزار کی طبی صورتحال سے مطمئن ہونے کی صورت میں سزا کی معطلی کو مزید بڑھا سکتی ہے‘۔

اس میں مزید کہا گیا کہ حکومت پنجاب نے فراہم کردہ میڈیکل رپورٹ کے پیش نظر نواز شریف کو مخصوص وقت کے لیے ضمانت دی تھی اور صوبائی حکومت سابق وزیراعظم کی صحت کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ضمانت میں توسیع دینے کا اختیار رکھتی تھی۔

مزید پڑھیں: نواز شریف نے اشتہاری قرار دینے کا حکم چیلنج کردیا

عدالتی حکم نامے میں یہ بھی کہا گیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نہیں نکالا بلکہ یہ بتایا گیا تھا کہ نواز شریف کا نام وفاقی کابینہ کے فیصلے پر ای سی ایل سے نکالا گیا۔

حکم نامے میں کہا گیا کہ وفاقی حکومت اور نیب میں سے کسی ایک نے بھی نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے سے متعلق عدالت کو آگاہ نہیں کیا جبکہ درخواست گزار نے بھی عدالت کو بتایا نہ ہی بیرونِ ملک جانے سے قبل اجازت لی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ حکومت پنجاب نے اگر نواز شریف کی ضمانت میں توسیع نہیں کی تو انہیں اس عدالت کے سامنے سرینڈر کرنا پڑے گا، بصورت دیگر نواز شریف حکومت کا ضمانت میں توسیع نہ کرنے کا فیصلہ متعلقہ عدالت میں چیلنج کر سکتے ہیں۔

حکم نامے میں کہا گیا کہ درخواست گزار کے وکیل درخواست کے قابل سماعت ہونے سے متعلق عدالت کو مطمئن نہیں کر سکے، لہٰذا وکیل درخواست گزار کی استدعا پر انہیں وقت دے رہے ہیں کہ وہ آئندہ سماعت پر عدالت کو مطمئن کریں۔

خیال رہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف نے توشہ خانہ ریفرنس میں احتساب عدالت کی جانب سے اشتہاری قرار دینے کے حکم کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرتے ہوئے حکم نامہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی تھی۔

درخواست میں سابق وزیراعظم نے استدعا کی کہ نمائندے کے ذریعے عدالت میں حاضری کی اجازت دی جائے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں سابق وزیراعظم نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) بلاجواز انہیں اور ان کے اہل خانہ کو نشانہ بنا رہا ہے، نیب اپوزیشن کو ٹارگٹ کرکے اس کی آواز دبانا چاہتا ہے۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ نواز شریف مفرور نہیں بلکہ ضمانت منظوری پر بیرون ملک گئے ہیں، بیرون ملک علاج جاری ہے اس لیے نمائندے کے ذریعے ٹرائل کا سامنا کرنے کی اجازت دی جائے۔

سابق وزیراعظم کا مؤقف تھا کہ یورپی یونین، ہیومن رائٹس واچ نیب کی بے بنیاد کارروائیوں کو غیر قانونی قرار دے چکی ہیں۔

انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے استدعا کی کہ احتساب عدالت کی کارروائی اور اشتہار جاری کرنے کا حکم نامہ کالعدم قرار دیا جائے۔

یاد رہے کہ 17 اگست کو ریفرنس کی سماعت میں پیش نہ ہونے کی صورت میں احتساب عدالت نے نواز شریف کو اشتہاری قرار دینے کا فیصلہ کر رکھا تھا۔

تاہم آج ہونے والی سماعت کے دوران نواز شریف کے معاملے پر احتساب عدالت نے ان کی سماعت ملتوی کرنے کی استدعا منظور کرلی، مزید یہ کہ عدالت نے انہیں اشتہاری قرار دینے کی کارروائی بھی مؤخر کردی، اب نواز شریف کی حد تک کیس کی سماعت 25 اگست کو ہوگی۔

خیال رہےکہ جون میں اسلام آباد کی احتساب عدالت نے توشہ خانہ ریفرنس میں عدم پیشی پر نواز شریف کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔

7 جولائی کو اسلام آباد کی احتساب عدالت نے توشہ خانہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی طلبی کا اشتہار جاری کیا تھا۔

جس کے بعد مسلم لیگ (ن) کے قائد کی ماڈل ٹاؤن اور جاتی عمرہ کی رہائش گاہ کے باہر 13 جولائی کو احتساب عدالت کا نوٹس چسپاں کیا گیا تھا جس میں انہیں 17 اگست کو عدالت میں پیش ہونے کی ہدایت کی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: توشہ خانہ ریفرنس: نواز شریف کے وارنٹ گرفتاری جاری

عدالت نے وزارت خارجہ کو ہدایت کی تھی کہ لندن میں موجود پاکستانی ہائی کمیشن کے ذریعے نواز شریف کے وارنٹ گرفتاری پر عمل کیا جائے۔

نیب کے اسپیشل پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا تھا کہ نواز شریف برطانیہ کے ایون فیلڈ اپارٹمنٹ میں رہائش پذیر ہیں، انہوں نے عدالت کو برطانیہ کے اخبارات میں نوٹس شائع کروانے کی تجویز دی تھی۔

بعد ازاں نیب کے انٹرنیشنل کرائم ونگ نے وزارت خارجہ سے رابطہ کر کے نواز شریف کے وارنٹ گرفتاری کا اشتہار ان کے گھر باہر لگانے کی ہدایت کی تھی، جس پر وزارت خارجہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر یورپ نے پاکستانی سفارت خانے سے رابطہ کیا تھا۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ سفارت خانے کو عدالتی احکامات پر عمدرآمد کروانے کا کہا گیا جس کے تحت اشتہار نواز شریف کی رہائش گاہ ایون فیلڈ اپارٹمنٹ کے باہر چسپاں کیا جائے گا جس پر سفارت خانے نے فوری عملدرآمد کی یقین دہانی کروائی تھی۔

توشہ خانہ ریفرنس

خیال رہے کہ احتساب عدالت میں قومی احتساب بیورو کے دائر کردہ ریفرنس کے مطابق یوسف رضا گیلانی پر پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف زرداری اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کو غیر قانونی طور پر گاڑیاں الاٹ کرنے کا الزام ہے۔

اس ریفرنس میں اومنی گروپ کے سربراہ خواجہ انور مجید اور خواجہ عبدالغنی مجید کو بھی ملزم نامزد کیا گیا ہے۔

ریفرنس میں کہا گیا کہ آصف زرداری اور نواز شریف نے کاروں کی صرف 15 فیصد قیمت ادا کر کے توشہ خانہ سے گاڑیاں حاصل کیں۔

بیورو نے الزام عائد کیا کہ یوسف رضا گیلانی نے اس سلسلے میں نواز شریف اور آصف زرداری کو سہولت فراہم کی اور تحائف کو قبول کرنے اور ضائع کرنے کے طریقہ کار کو غیر قانونی طور پر نرم کیا۔

ریفرنس میں کہا گیا کہ آصف زرداری نے ستمبر، اکتوبر 2008 میں متحدہ عرب امارات سے مسلح گاڑیاں (بی ایم ڈبلیو 750 لی ماڈل 2005، لیکسز جیپ ماڈل 2007) اور لیبیا سے (بی ایم ڈبلیو 760 لی ماڈل 2008) حاصل کیں۔

مذکورہ ریفرنس کے مطابق وہ فوری طور پر اس کی اطلاع دینے اور کابینہ ٖڈویژن کے توشہ خانہ میں جمع کروانے کے پابند تھے لیکن انہوں نے نہ تو گاڑیوں کے بارے میں مطلع کیا نہ ہی انہیں نکالا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: آصف زرداری، نواز شریف، یوسف رضا گیلانی کے خلاف نیب کا نیا ریفرنس دائر

نیب ریفرنس میں الزام لگایا گیا کہ سال 2008 میں نواز شریف کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں تھا اس کے باوجود اپریل تا دسمبر 2008 میں انہوں نے اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو کوئی درخواست دیے بغیر اپنے فائدے کے لیے کابینہ ڈویژن کے تحت طریقہ کار میں بے ایمانی اور غیر قانونی طور پر نرمی حاصل کی۔

ریفرنس کے مطابق خواجہ انور مجید نے ایم ایس انصاری شوگر ملز لمیٹڈ کے اکاؤنٹس استعمال کرتے ہوئے آواری ٹاور کے نیشنل بینک کے ایک اکاؤنٹ سے 92 لاکھ روپے آصف زرداری کے اکاؤنٹ میں منتقل کیے۔

اس کے علاوہ انہوں نے ایک اکاؤنٹ کے ذریعے آصف زرداری کی جانب سے ایک کروڑ 11 لاکھ 17 ہزار 557 روپے کی ادائیگی کی، ملزم نے اپنی غیر قانونی اسکیم کے سلسلے میں آصف زرداری کو ناجائز فوائد کے لیے مجموعی طور پر 2 کروڑ 3 لاکھ 17 ہزار 557 روپے ادا کیے۔

دوسری جانب خواجہ عبدالغنی مجید نے آصف زرداری کو ناجائز فائدہ پہنچانے کے لیے 3 ہزار 716 ملین (371 کروڑ 60 لاکھ) روپے کی خطیر ادائیگیاں کیں۔

نیب نے ان افراد پر بدعنوانی کا جرم کرنے اور نیب قوانین کے تحت واضح کی گئیں کرپٹ پریکٹسز میں ملوث رہنے کا الزام لگایا۔

نیب نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ ان ملزمان پر مقدمہ چلا کر سخت ترین جیل کی سزا دی جائے۔

تبصرے (0) بند ہیں