کرائسٹ چرچ حملہ، کب کیا ہوا؟

اپ ڈیٹ 27 اگست 2020
— فائل فوٹو: اے پی
— فائل فوٹو: اے پی

نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں 15 مارچ کو 2 مساجد النور مسجد اور لین ووڈ میں دہشت گرد نے اس وقت داخل ہوکر فائرنگ کی تھی جب بڑی تعداد میں نمازی، نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے لیے مسجد میں موجود تھے۔

حملہ آور نے مساجد پر حملے کی لائیو اسٹریمنگ کی تھی، جو سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہوئی تاہم فیس بک، ٹوئٹر اور یوٹیوب سمیت کئی آن لائن پلیٹ فارمز نے یہ ویڈیوز فوری طور پر ڈیلیٹ کرنا شروع کر دیں تھی اور اسے اپنی پالیسی کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔

واضح رہے کہ جزیرہ نما نیوزی لینڈ کی مجموعی آبادی 42 لاکھ سے زائد ہے جبکہ اس میں ایک فیصد یعنی 40 ہزار کے قریب افراد مسلمان ہیں۔

پولیس نے حملے کے الزام میں ایک خاتون سمیت 4 حملہ آوروں کو گرفتار کیا تھا جس کے بعد آسٹریلین وزیراعظم اسکاٹ موریسن نے بیان جاری کیا تھا کہ نیوزی لینڈ میں گرفتار افراد میں آسٹریلیا کے شہری بھی شامل ہیں۔

حملے کے فوری بعد نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا تھا کہ اس افسوسناک واقعے میں 50 افراد جاں بحق جبکہ متعدد زخمی ہوئے، انہوں نے حملے کو دہشت گردی قرار دیا تھا۔

واقعے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن نے کہا تھا کہ نیوزی لینڈ میں اس طرح کی انتہا پسندی کی کوئی مثال نہیں ملتی، یہ ہمارے ملک کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے اور ہمیشہ رہے گا۔

یاد رہے کہ فائرنگ کے وقت بنگلہ دیشی کرکٹ ٹیم بھی نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد پہنچی تھی تاہم فائرنگ کی آواز سن کر بچ نکلنے میں کامیاب رہی اور واپس ہوٹل پہنچ گئی۔

مذکورہ واقعے کے بعد کرائسٹ چرچ میں بنگلہ دیش اور نیوزی لینڈ کے درمیان اس وقت ہونے والا تیسرا ٹیسٹ منسوخ کردیا گیا تھا اور بعد ازاں بنگلہ دیش کرکٹ ٹیم نے فوری طور پر نیوزی لینڈ کا دورہ ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔

بعد ازاں نیوزی لینڈ میں مساجد پر حملہ کرنے والے دہشت گرد برینٹن ٹیرنٹ کو عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔

22 مارچ کو نیوزی لینڈ کی تاریخ کی بدترین دہشت گردی کے ایک ہفتے بعد نہ صرف سرکاری طور پر اذان نشر کی گئی بلکہ مسجد النور کے سامنے ہیگلے پارک میں نمازِ جمعہ کے اجتماع میں وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن کے علاوہ ہزاروں غیر مسلم افراد نے بھی شرکت کی تھی۔

علاوہ ازیں 2 اپریل کو نیوزی لینڈ کی پارلیمنٹ نے فوجی طرز کے نیم خودکار (سیمی آٹومیٹک) بندوقوں اور رائفلز پر پابندی کے بل کو منظور کرلیا تھا۔

مجموعی طور پر 120 قانون سازوں نے بل کے حق میں ووٹ دیا جبکہ صرف ایک قانون ساز کی جانب سے بل کی مخالفت سامنے آئی تھی۔

برینٹن ٹیرنٹ پر دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ چلایا گیا تھا اور اس نے 26 مارچ 2020 کو حملے کے تمام الزامات قبول کرتے ہوئے 51 افراد کے قتل سمیت 40 افراد کے اقدام قتل کے جرائم بھی قبول کیے تھے۔

نیوزی لینڈ کی حکومت نے مساجد پر حملے کے بعد تفتیش کے لیے رائل کمیشن بھی تشکیل دیا تھا، جو حملے میں شہید ہونے والے افراد کے اہل خانہ سمیت دیگر شہریوں کے بیانات قلم بند کر رہا ہے۔

برینٹن ٹیرنٹ کو سزا سنائے جانے کی سماعتوں کا آغاز 24 اگست سے ہوا اور اسے آج 27 اگست کو معافی کا حق نہ دیتے ہوئےعمر قید کی سزا سنادی گئی۔ واضح رہے کہ یہ نیوزی لینڈ کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ کسی مجرم کو معافی کا حق نہیں دیا گیا۔

رواں سال 7 جولائی کو نیوزی لینڈ کی مسلمان خواتین کی معروف تنظیم نے انکشاف کیا تھا کہ اس نے مارچ 2019 میں کرائسٹ چرچ کی مساجد پر حملے سے قبل ہی اس جیسے حملوں کی دھمکیوں سے متعلق پولیس اور حکام کو خبردار کیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق مذکورہ انکشاف دی اسلامک ویمن کونسل آف نیوزی لینڈ (آئی ڈبلیو سی این زیڈ) کی رہنماؤں کی جانب سے کرائسٹ چرچ مساجد حملوں کی تفتیش کرنے والی رائل کمیشن کو دیے گئے بیان میں کیا گیا تھا۔

بعد ازاں 24 اگست 2020 کو نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی 2 مساجد میں 51 افراد کو فائرنگ کر کے قتل کردینے والے سفید فام نسل پرست دہشت گرد برینٹن ٹیرنٹ کو سزا دینے کی کارروائی کا آغاز ہوا۔

اس موقع پر دہشت گردی کے اس واقعے کے شکار بننے والوں کے لواحقین نے اس ہولناک قتل عام کی یادیں تازہ کیں جنہیں یہ 29 سالہ شخص بغیر کسی تاثر کے سنتا رہا۔

تبصرے (0) بند ہیں