یورپی یونین کے متعدد اراکین نے بیلاروس کے صدر کو بلیک لسٹ کردیا

اپ ڈیٹ 01 ستمبر 2020
لوکاشینکو ملک میں اصلاحات کے لیے ریفرنڈم کی تیاریاں کررہے ہیں—فائل/فوٹو:رائٹرز
لوکاشینکو ملک میں اصلاحات کے لیے ریفرنڈم کی تیاریاں کررہے ہیں—فائل/فوٹو:رائٹرز

یورپ کے بالٹک ریجن کے ممالک نے انتخابی نتائج میں فراڈ کرنے اور مظاہرین پر تشدد کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکاشینکو اور دیگر 29 اعلیٰ عہدیداروں کو بلیک لسٹ کردیا۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق یورپی یونین کے رکن ممالک ایسٹونیا، لٹویا اور لتھوانیا نے مظاہرین کے ساتھ یک جہتی کرنے کے لیے بیلاروس کے صدر اور دیگر اعلیٰ عہدیداروں کو بلیک لسٹ کردیا۔

لتھوانیا کے وزیرخارجہ لیناس لینکویشس کا کہنا تھا کہ 'ہم پیغام بھیج رہے ہیں کہ ہمیں صرف بیانات دینے سے زیادہ کرنے کی ضرورت ہے اور ہمیں بنیادی اقدامات کرنے ہوں گے'۔

مزید پڑھیں:بیلاروس کے صدر کے نیٹو پر الزامات، پڑوسی ممالک پر پابندیوں کی دھمکی

خیال رہے کہ لتھوانیا نے بیلاروس کے صدر کے مخالف رہنما سویٹلانا ٹیکھانوسکایا کو انتخابات کے بعد پناہ دے رکھی ہے جن کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ خاتون رہنما کامیاب ہوئی ہیں۔

سویٹلانا ٹیکھانوسکایا کے ترجمان کا کہنا تھا کہ وہ ایسٹونیا کی دعوت پر رواں ہفتے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں خطاب کریں گی۔

دوسری جانب یورپی یونین بھی بیلاروس کی مختلف شخصیات پر پابندی کے لیے فہرست مرتب کر رہی ہے، تاہم مغربی ممالک روس کی مداخلت کے پیش نظر کسی بھی بڑے اقدام سے گریز کر رہے ہیں۔

بیلاروس کی وزارت خارجہ نے بالٹک ممالک کے اقدام پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اس کے برابر جواب دیا جائے گا اور ہماری پابندیاں بھاری ہوں گی۔

رپورٹس کے مطابق بیلاروس کے صدر لوکا شینکو ملک کے نظام میں خامیوں کا اعتراف کرتے ہوئے آئینی اصلاحات کے لیے ریفرنڈم کے منصوبے پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں۔

لوکاشینکو کا زور عدالتی اصلاحات پر ہے اور انہوں نے اپوزیشن کے 1994 کے آئین کی بحال کے مطالبے کو مسترد کردیا۔

دو روز قبل ہی الیگزینڈر لوکاشینکو نے نیٹو اتحاد پر ان کے خلاف مظاہرین کو بھڑکانے کا الزام عائد کرتے ہوئے یورپی یونین کے اراکین و پڑوسی ممالک لتھوانیا اور پولینڈ کو جوابی پابندیوں کی دھمکی دی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: بیلاروس کے انتخابی نتائج مسترد، یورپی یونین کی پابندیوں کی تنبیہ

ان کا کہنا تھا کہ روس کے خلاف محاذ کھڑا کرنے کے لیے مظاہرین کی مدد کی جارہی ہے اور 'وہ میری حکومت کو ختم کرکے ایک ایسے آدمی کو رکھنا چاہتے ہیں جو دوسرے ممالک سے تعاون کے لیے فوج بھیجنے کا مطالبہ کرے'۔

یاد رہے کہ بیلاروس میں 9 اگست کو انتخابات ہوئے تھے جس کے بعد اپوزیشن نے طویل عرصے سے برسر اقتدار لوکاشینکو پر دھاندلی کا الزام عائد کیا تھا اور شدید احتجاج شروع ہوا تھا۔

صدر الیگزینڈر لیوکاشینکو نے 80 فیصد نشستیں حاصل کرنے کا دعویٰ کیا تھا جبکہ اپوزیشن رہنما نے اپنی کامیابی کا دعویٰ کیا تھا۔

صدر کے اعلان کے بعد بیلاروس میں شدید احتجاج شروع ہوا تھا جس کو 1991 میں سوویت یونین سے آزادی کے بعد بدترین احتجاج قرار دیا جارہا ہے۔

یورپی یونین نے انتخابات کے متنازع نتائج کو مسترد کرتے ہوئے صدر الیگزینڈر لیوکاشینکو کی حکومت پر پابندیاں عائد کرنے کی دھمکی دی تھی۔

یورپی یونین کونسل کے صدر چارلس مائیکل نے ہنگامی اجلاس کے بعد بتایا تھا کہ ہمارا بلاک بیلاروس کے عوام کے ساتھ ہے، صدر الیگزینڈر لوکاشینکو کی جیت نہ تو شفاف تھی اور نہ ہی آزادانہ انتخاب تھا۔

چارلس مائیکل کا کہنا تھا کہ جلد ہی کشیدگی پھیلانے، دباؤ ڈالنے اور انتخابات میں دھاندلی کے ذمہ دار افراد تک پہنچا جائے گا۔

مزید پڑھیں: مشرقی بحیرہ روم میں تنازع: یورپی یونین کی ترکی کو پابندیوں کی دھمکی

پابندیوں سے متعلق انہوں نے کہا تھا کہ ان پر یورپی یونین میں سفری پابندی ہوگی اور اثاثے بھی منجمد ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'یہ انتخابات نہ تو آزادانہ تھے اور نہ ہی شفاف تھے اور بین الاقوامی معیار پر بھی پورے نہیں اترتے تھے، بیلاروس کے حکام کی جانب سے پیش کیے گئے انتخابی نتائج کو ہم نہیں مانتے ہیں'۔

بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکاشینکو 26 برس سے ملک میں حکمرانی کر رہے ہیں لیکن انتخابات کے بعد ہونے والے احتجاج نے حکومت پر ان کی گرفت کمزور کردی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں