سی اے اے سربراہ کے تقرر کا کیس: عدالت نے اٹارنی جنرل سے معاونت مانگ لی

اپ ڈیٹ 09 ستمبر 2020
عدالت عالیہ میں کیس کی سماعت ہوئی—فائل فوٹو: اے ایف پی
عدالت عالیہ میں کیس کی سماعت ہوئی—فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد ہائی کورٹ نے گزشتہ 2 سال سے ڈائریکٹر جنرل سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) کا دفتر ایڈ ہاک بنیادوں پر چلانے کے حکومتی عمل پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اس معاملے میں اٹارنی جنرل سے معاونت چاہتے ہوئے کیس کی سماعت 23 ستمبر کے لیے مقرر کردی۔

عدالت عالیہ میں مشکوک لائسنس کے الزام میں برطرف کیے گئے ایک پائلٹ کی دائر درخواست پر سماعت ہوئی۔

درخواست گزار کی جانب سے اپنی برطرفی کے حکم کو کالعدم قرار دیے جانے کے ساتھ ساتھ سی اے اے کے مستقل ڈی جی کے تقرر کی استدعا بھی کی گئی۔

اس سے قبل عدالت نے پائلٹ کی معطلی کے خلاف حکم امتناع جاری کیا تھا۔

مزید پڑھیں: سول ایوی ایشن اتھارٹی کو 2 اداروں میں تقسیم کرنے کیلئے کوششیں جاری

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان نے لائسنس کے معاملے کی وجہ سے بے حد پریشانی کا سامنا کیا لیکن حکومت اب تک سی اے اے چیف کا اہم دفتر عارضی انتظامات کے ذریعے چلا رہی ہے۔

ایوی ایشن ڈویژن کے ذرائع کا کہنا تھا کہ سی اے اے کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے کے علاوہ کم از کم 12 سینئر پوزیشنز کئی ماہ سے خالی ہیں اور جونیئر افسران کو سینئر پوزیشنز پر اضافی چارج دیا گیا ہے۔

ان عہدوں میں ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل (ڈی ڈی جی) ایئر نیویگیشن سسٹم، ڈی ڈی جی ریگولیشنز، ڈی ڈی جی ایئرپورٹ سروسز، ڈائریکٹر کمرشل، ڈائریکٹر انجینئرنگ اور ڈائریکٹر سول ایوی ایشن ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ شامل ہیں۔

اس حوالے سے جب سی اے اے کے قانونی افسر رانا بلال سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے دعویٰ کیا کہ سی اے اے کے عہدوں میں سب کچھ ترتیب سے ہے۔

تاہم ایوی ایشن ڈویژن کے جوائنٹ سیکریٹری عبدالستار کھوکھر کا کہنا تھا کہ ڈپارٹمنٹ پروموشن کمیٹی نے جونیئر افسران کی ترقی کی سفارش کی تھی جو خالی نشستوں کو پر کریں گے۔

قبل ازیں 12 اگست کی سماعت میں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا تھا کہ سی اے اے کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر ایک اہل اور قابل شخص کا تقرر ریاست کے ایگزیکٹور آرگن کے ایکسکلوزو ڈومین میں آتا ہے، ساتھ ہی عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ پھر بھی، یہ قانونی دفعات سے ظاہر نہیں ہوتا ہے کہ اشتہار کے ذریعے تقرر کا طریقہ متعین کیا گیا ہے۔

مزید برآں منگل کو ہوئی سماعت میں جہاں عدالت نے نوٹ کیا کہ اس معاملے میں آئین کے آرٹیکل 14 کے تحت ہر شخص کا بنیادی حق شامل ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سول ایوی ایشن اتھارٹی کو شہری ہوا بازی لکھنے اور کہنے میں کیا قباحت ہے؟

عدالت نے مشاہدہ کیا کہ جس طرح اس معاملے کو سنبھالا گیا، اس سے پہلے یہ بڑی بدانتظامی کی طرف اشارہ ہے، اس کے علاوہ کمرشل پائلٹس کے لائسنس سے متعلق معاملہ اور ایک اہم ریگولیٹری اتھارٹی، جیسے سول ایوی ایشن اتھارٹی، کے قائم مقام ڈائریکٹر جنرل کی جانب سے کی گئی کارروائی کے باعث ملک کے امیج اور قومی ایئرلائن کے مفادات کے لیے گہرے نتائج سامنے آئے ہیں۔

اس کیس میں عدالت کی جانب سے اٹارنی جنرل کو طلب کیا گیا تھا لیکن اسسٹنٹ اٹارنی جنرل منگل کو ہونے والی سماعت میں پیش ہوئے۔

بعد ازاں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اس پر افسوس کا اظہار کیا کہ حکومت کس طریقے سے چلائی جارہی ہے، انہوں نے 23 ستمبر تک سماعت ملتوی کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ وہ حکومت سے ہدایات لیں کیونکہ سی اے اے کے ڈی جی کے تقرر کا معاملہ عوامی مفاد کا ہے۔


یہ خبر 09 ستمبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں