بلدیہ فیکٹری کے مرکزی ملزمان کی سفاکی

اپ ڈیٹ 22 ستمبر 2020
علی انٹرپرائزز میں ستمبر 2012 میں آگ لگی تھی—فائل فوٹو: اے ایف پی
علی انٹرپرائزز میں ستمبر 2012 میں آگ لگی تھی—فائل فوٹو: اے ایف پی

کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں ایک فیکٹری علی انٹرپرائزز میں آگ لگانے کے الزام میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے سابق رکن اسمبلی اور اس وقت کے وزیر صنعت و تجارت رؤف صدیقی، ایم کیو ایم کے سابق سیکٹر انچارج عبدالرحمٰن عرف بھولا، زبیر عرف چریا اور ان کی مدد کرنے والے 4 گیٹ کیپرز، شاہ رخ، فضل احمد، ارشد محمود اور علی محمد پر فرد جرم عائد کی گئی تھی۔

تفتیش کاروں نے فیکٹری میں آگ لگانے کے لیے منصوبے کے مطابق ملزمان کو دی گئی ذمہ داریوں کا تعین کیا تھا، جس کی تفصیل درج ذیل ہے۔

روف صدیقی

جب بلدیہ فیکٹری جل کر راکھ ہوگئی تھی اس وقت متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما رؤف صدیقی صوبائی وزیر صنعت و تجارت تھے۔

عبدالرحمٰن عرف بھولا

ایم کیو ایم کے سیکٹر انچارج عبدالرحمٰن عرف بھولا نے اپنے سیکٹر کے دفتر سے زبیر عرف چریا اور دیگر ملزمان کو کیمیکل (میگنیشیم میٹل) فراہم کیا جہاں تمام ملزمان جمع ہوگئے تھے۔

عبدالرحمٰن عرف بھولا نے ملزمان کو فیکٹری کے گیٹ تک پہنچایا۔

فیکٹری میں آگ لگنے کے بعد اس وقت کے ایم کیو ایم کے رکن صوبائی اسمبلی حنیف شیخ اور عبدالرحمٰن عرف بھولا فیکٹری کے باہر موجود تھے۔

ایم کیو ایم نے امدادی کیمپ لگائے، فائر بریگیڈ کے تین اہلکار زخمی ہوئے تھے جنہیں درحقیقت ایم کیو ایم کے کارکنوں نے تشدد کا نشانہ بنایا تھا اور آگ سے کوئی فائر فائٹر متاثر نہیں ہوا تھا۔

محمد زیبر عرف چریا

محمد زبیر عرف چریا ایم کیو ایم کا متحرک کارکن تھا اور ان کے پاس علی انٹرپرائزز سے ایم کیو ایم کے معاملات کی ذمہ داری تھی اور اسی لیے انہیں مالکان کی جانب سے ملازمت دی گئی تھی۔

محمد زبیر عرف چریا کا بچپن کا دوست ماجد بیگ تھا، جو اصغر بیگ کا بھائی تھا، عبدالرحمٰن عرف بھولا سے قبل اصغر بیگ بلدیہ سیکٹر کا انچارج تھا اور ماجد اکثر زبیر عرف چریا سے ملنے آیا کرتا تھا۔

بلدیہ فیکٹر کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے مطابق ملزم رضوان قریشی نے کہا کہ اصغر بیگ سے 25 کروڑ روپے بھتہ لینے کی ہدایت کی گئی اور 20 کروڑ یا شراکت داری پر معاملات طے پا گئے۔

اصغر بیگ نے فیکٹری مالکان سے ہمدردی جتاتے ہوئے مزید رقم کا مطالبہ نہیں کیا اور اسی لیے ایم کیو ایم کی قیادت نے عبدالرحمٰن عرف بھولا کو نیا سیکٹر انچارج مقرر کردیا۔

اصغر بیگ نے فیکٹری مالکان اور عبدالرحمٰن بھولا کی ملاقات حماد صدیقی سے کروائی اور پوچھا کہ ان سے بھتہ کیوں طلب کیا گیا، ملاقات کے دوران فیکٹری مالکان سے تعاون پر حماد صدیقی اور اصغر بیگ کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔

زبیر عرف چریا فیکٹری میں پیش آئے حادثے کے روز ہی 6 سے 7 لڑکوں کو فیکٹری لے کر آیا، جو پہلے واش روم میں چرس پی کر باہر آئے، بعد ازاں پہلی اور دوسری منزل میں قائم کینٹین میں بیٹھ گئے، جس کے بعد انہوں نے کیمیکل پھینکا جس کے نتیجے میں آگ لگ گئی، ملزمان نے گیٹ کا دروزاہ بند کردیا تاکہ مزدور باہر نہ نکل سکیں۔

زبیر عرف چریا کو رینجرز نے 90 روز کی حراست میں رکھا اور قتل کے متعدد کیسز میں ملوث ہونے کی وجہ سے انہیں سائٹ بی پولیس کے حوالے کردیا کیونکہ پولیس زبیر عرف چریا کو بلدیہ فیکٹری کے معاملے پر گرفتار کرنے سے ہچکچا رہی تھی۔

انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) ٹو نے بلدیہ فیکٹری کیس میں زیبر عرف چریا کو گرفتار کرنے کا حکم دیا تو وہ پہلے سے ہی سینٹرل جیل کراچی میں قتل کے دیگر مقدمات کے الزام میں قید تھے۔

فیکٹری مالکان

فیکٹری مالکان ارشد بھائیلا اور شاہد بھائیلا نے 2013 کے بعد ایم کیو ایم سے معاملات طے کرنے کی خواہش ظاہر کی اور حیدر آباد میں موجود کاروباری دوست علی حسن قادری سے رابطہ کیا جو بظاہر انیس قائم خانی کے فرنٹ مین تھے۔

انیس قائم خانی اس وقت سابق میئر کراچی مصطفیٰ کمال کی سیاسی جماعت پاک سرزمین پارٹی کے بانی رکن اور سینئر رہنما ہیں۔

حیدر آباد سے تعلق رکھنے والے کاروباری افراد

حیدر آباد سے تعلق رکھنے والے کاروباری افراد عمر حسن قادری، علی حسن قادری، ڈاکٹر عبدالستار خان اور اقبال ادیب خانم نے بھی فیکٹری مالکان سے پیسے وصول کیے۔

ان کاروباری افراد نے فیکٹری مالکان سے بظاہر متاثرین کو معاوضہ ادا کرنے کے لیے 5 کروڑ 98 لاکھ روپے بینک کے ذریعے وصول کیے جو جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کو فی کس تقریباً ڈیڑھ لاکھ سے دو لاکھ جبکہ زخمیوں کو فی کس 50 ہزار بنتی تھی۔

علاج کے لیے کینیڈا روانہ

علی حسن قادری کو عدالت نے اشتہاری قرار دیا اور وہ علاج کی غرض سے کینیڈا چلے گئے تھے اور بعد ازاں وہی سکونت اختیار کرلی اور واپس کبھی نہیں آئے۔

عدالت نے انہیں مفرور مجرم قرار دیتے ہوئے گرفتاری کے وارنٹ جاری کردیے تھے۔

70 سالہ خاتون اقبال ادیب خانم

اقبال ادیب خانم 70 سالہ خاتون ہیں جو معذوری کے باعث وہیل چیئر پر ہیں اور عدالت نے صحت کے باعث انہیں پیشی سے استثنیٰ دے دیا۔

تاہم حیدرآباد کی کاروباری شخصیت نے فیکٹری مالکان سے بظاہر متاثرین کو معاوضہ ادا کرنے کے لیے حاصل کی گئی رقم سے لطیف آباد حیدرآباد میں ایک ہزار مربع گز کا رہائشی پلاٹ خریدا۔

کیس سے منسلک تفتیشی افسر ایس ایس پی ساجد سدوزئی نے بعد ازاں حیدر آباد ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو خط لکھا اور پلاٹ سے متعلق مزید ٹرانزیکشن روکنے کی درخواست کی۔

حماد صدیقی

مصطفیٰ کمال نے کہا تھا کہ حماد صدیقی فرزند کراچی ہیں اور اگر ان کے خلاف کوئی جرم ثابت ہوتا ہے کہ مجھے (مصطفیٰ کمال) پھانسی پر چڑھایا جائے۔

سابق سٹی ناظم کراچی کا یہ بیان ٹی وی چینلوں اور میڈیا کے ریکارڈ میں موجود ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں