بہاولنگر: اقدام قتل کے ملزمان کو ’وی آئی پی پروٹوکول‘ دینے کے خلاف احتجاج

اپ ڈیٹ 05 اکتوبر 2020
پولیس پر رشوت لینے اور وی آئی پی پروٹوکول دینے کا الزام لگایا گیا—فائل فوٹو: پنجاب پولیس فیس بک پیج
پولیس پر رشوت لینے اور وی آئی پی پروٹوکول دینے کا الزام لگایا گیا—فائل فوٹو: پنجاب پولیس فیس بک پیج

بہاولنگر: چک للیکا اور چک لالا امر سنگھ کے لوگوں نے اقدام قتل کے مقدمے میں گرفتار مشتبہ ملزمان کو رشوت کے عوض مبینہ طور پر وی آئی پی پروٹوکول دینے اور حمایت کرنے کے خلاف احتجاج کیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چک للیکا کے ممتاز احمد جوئیہ نے کہا کہ ان پر نصیرپور متن کے امین عرف کالی ماچھی کی جانب سے 2003 میں ان کے مابین ہوئے جائیداد کے تنازع پر قتل کے بعد سے ان پر مستقل حملے کیے جارہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 19 ستمبر کی رات کو امین اپنے تین مسلح ساتھیوں احمد رضا، امداد اور زاہد کے ہمراہ ان کے گھر میں داخل ہوا اور فائرنگ شروع کردی، جس کے نتیجے میں ان کی بیوی شدید زخمی ہوگئی اور انہیں علاج کے لیے بہاولنگر کے بہاول وکٹوریا ہسپتال منتقل کیا گیا۔

ویڈیو دیکھیں: پنجاب پولیس کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کا آغاز

ان کا مزید کہنا تھا کہ 20 ستمبر کو گھمندپور تھانے میں فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کرائی جس پر پولیس نے ملزم کو گرفتار کرنے کے لیے چک نصیر پور میں چھاپہ مارا مگر وہ ناکام رہی کیونکہ تھانہ گھمندپور کے اسٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) کی جانب سے ملزمان کے سرپرست اور ماچھی قبیلے کے سربراہ عباس ماچھی کو مبینہ طور پر مطلع کردیا گیا تھا، جس کی تصدیق ماچھی قبیلے کے سردار عباس ماچھی اور ایس ایچ او کے کال ریکارڈز سے کی جاسکتی ہے۔

بعدازاں 23 ستمبر کو نامزد ملزم احمد رضا کو عبوری ضمانت پر جبکہ باقی ملزمان کو عباس ماچھی نے بااثر افراد کے ذریعے پولیس کے سامنے پیش کیا۔

انہوں نے الزام لگایا کہ سیاسی شخصیت کے اثرورسوخ اور بھاری رشوت کے عوض ایس ایچ او نے انہیں وی آئی پی پروٹوکول دیا اور انہیں تھانے میں موجود ایک الگ کمرے میں رکھا گیا۔

ممتاز احمد جوئیہ نے نمائندے کے ساتھ کچھ ویڈیوز شیئر کیں (جن میں سے ایک ویڈیو وائرل بھی ہوئی) جس میں گرفتار ملزم کو کمرے میں تفتیشی افسر کے سامنے کھاتے ہوئے، سگریٹ پیتے اور مہمانوں سے ملاقات کرتے ہوئے دیکھا گیا۔

ساتھ ہی انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ پولیس نے 10 روز تک ملزمان کو تحویل میں رکھنے کے باوجود ان کی گرفتاری ظاہر نہیں کی۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ سیاستدان کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی وجہ سے پولیس چاہتی ہے کہ وہ نامزد ملزمان کو بے گناہ قرار دے جبکہ عباس ماچھی انہیں کیس واپس لینے کے لیے دھمکا رہے ہیں۔

علاوہ ازیں چک لالا امر سنگھ سے تعلق رکھنے والے ممتاز احمد جوئیہ کے دوست عباس جھوبیل نے کہا کہ پولیس چھاپے کے ناکام ہونے کے فوری بعد عباس ماچھی نے ممتاز جوئیہ کی حمایت میں اپنے 7 مسلح ساتھیوں کے ہمراہ ان کے گھر پر حملہ کیا اور ان لوگوں نے میرے والدین کو تشدد کا نشانہ بنایا اور فائرنگ کی جس سے میرے والدین معذور ہوچکے ہیں۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ عباس ماچھی کے خلاف 1992 سے اب تک ڈکیتی، قتل، اقدام قتل اور ریپ سمیت درجنوں مقدمات درج ہیں تاہم اس کے باوجود پولیس انہیں بےگناہ قرار دینے کی کوشش کر رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سی سی پی او لاہور سے اختلافات: آئی جی پنجاب تبدیل

ساتھ ہی انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ عباس ماچھی اور ان کے خاندان کی طرف سے انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دی جارہی ہیں۔

دوسری جانب مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ ضلع بہاولنگر کے تھانے کے افسران ذاتی طور پر ان کیسز کی تحقیقات کریں یا اس معاملے میں کسی قابل اعتماد افسر کا تقرر کیا جائے۔

انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ انسپکٹر جنرل (آئی جی)، پولیس تحویل میں ملزمان کو وی آئی پی پروٹوکول دیے جانے اور سیاسی مداخلت کا نوٹس لیں۔

دریں اثنا ایس ایچ او گھمند پور نصیر احمد نے دعویٰ کیا کہ ممتاز جوئیہ کے کیس میں کوئی بھی ملزم پولیس کی حراست میں نہیں تھا اور نہ ہی ان کی جانب سے کسی کو پروٹوکول دیا گیا، مزید یہ کہ مک لیود گنج تھانے کے تفتیشی افسر نے بھی شکایت کنندہ کو ہراساں کیے جانے سے انکار کیا۔


یہ خبر 5 اکتوبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں