مہوش حیات اور ‘گالا بسکٹ’ کیوں ٹرینڈ کررہے ہیں؟

06 اکتوبر 2020
2 روز قبل اداکارہ نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر گالا بسکٹ کا اشتہار شیئر کیا تھا— فوٹو: ٹوئٹر
2 روز قبل اداکارہ نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر گالا بسکٹ کا اشتہار شیئر کیا تھا— فوٹو: ٹوئٹر

اداکارہ مہوش حیات حال ہی میں نشر ہونے والے بسکٹ کے اشتہار کے باعث سوشل میڈیا صارفین کی تنقید کے زد میں ہیں جبکہ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے بھی اشتہار کے مواد پر نظرثانی کی ہدایت کی ہے۔

2 روز قبل اداکارہ نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر گالا بسکٹ کا اشتہار شیئر کیا تھا اور ساتھ ہی لکھا تھا کہ گالا کے اس ماسٹر پیس کا حصہ بننا بہت خوشی کا باعث تھا جس میں ہم اپنے ثقافتی تنوع کو دکھاتے ہیں کیونکہ ’ اپنے دیس کا ہر رنگ ہے نرالا‘۔

تاہم ان کی جانب سے مذکورہ اشتہار شیئر کرنے کے بعد ملک کے معروف صحافی انصار عباسی کی جانب سے اعتراض اٹھایا گیا اور پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کی توجہ اس اشتہار کی جانب مبذول کروائی تھی۔

بسکٹ کا یہ اشتہار 2 روز قبل جاری ہوا تھا جو ایک منٹ 37 سیکنڈز پر مشتمل ہے جس میں اداکارہ مہوش حیات موجود ہیں۔

مزید پڑھیں: پیمرا کی ’ گالا بسکٹ‘ کے اشتہار کے مواد پر نظرثانی کی ہدایت

اس اشتہار میں اداکارہ چاروں صوبوں کے لباس اور زبان میں گالا بسکٹ کو پروموٹ کرتی ہوئی نظر آئیں۔

خیال رہے کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ گالا بسکٹ کا اشتہار گانے کی صورت میں بنایا گیا اس سے قبل اسی طرز کے اشتہار بنائے جاچکے ہیں اور پاکستان کے اکثر اشتہارات میں موسیقی اور رقص دکھائی دیتا ہے۔

لیکن صحافی انصار عباسی نے مذکورہ اشتہار پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ ’بسکٹ بیچنے کے لیے اب ٹی وی چینلز پر مُجرا چلے گا، پیمرا نام کا کوئی ادارہ ہے یہاں؟ کیا وزیراعظم عمران خان اس معاملے پر کوئی ایکشن لیں گے؟ کیا پاکستان اسلام کے نام پر نہیں بنا تھا؟’

صحافی کے اس ٹوئٹ کا جواب دیتے ہوئے اب وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے بھی اشتہار کے مواد کی مخالفت کی۔

انہوں نے لکھا کہ ’وزیراعظم عمران خان میڈیا پر ایسے اسلام مخالف مواد کے سخت خلاف ہیں جو ہماری ثقافتی اقدار کے منافی ہو اور ہمارے نوجوانوں پر نقصان دہ اثرات مرتب کرے’۔

علی محمد خان نے مزید لکھا کہ ’ایک اسلامی ریاست جو کلمہ طیبہ پر بنی ہو، اس میں ایسی بیہودگی کی جگہ نہیں’۔

تاہم وفاقی وزیر برائے ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے انصار عباسی کے ٹوئٹ پر تنقید کی اور لکھا کہ آپ اور علی 24 گھنٹے فحاشی کیوں سرچ کرتے رہتے ہیں؟ کوئی تعمیری کام کیا کریں۔

بعدازاں پیمرا کی جانب سے گالا بسکٹ کے اشتہار پر تنقید کے بعد ایڈوائزری جاری کی گئی جس میں پاکستان براڈ کاسٹر ایسوسی ایشن (پی بی اے)، پاکستان ایڈورٹائزنگ ایسوسی ایشن (پی اے اے) اور پاکستان ایڈورٹائزرز سوسائٹی (پی اے ایس) کو ’گالا بسکٹ‘ کے اشتہار کے مواد پر نظرثانی کی ہدایت کی گئی۔

پیمرا کی جاری کردہ ایڈوائزری میں کہا گیا کہ یہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ سیٹیلائٹ ٹی وی چینلز پر نشر ہونے والی عام مصنوعات جیسا کہ بسکٹس، سرف وغیرہ کے اشتہارات کا مواد ان مصنوعات سے مطابقت نہیں رکھتا۔

تاہم پیمرا کی جانب سے مذکورہ ایڈوائزری جاری ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر ایک بحث چھڑ گئی جس میں کچھ نے پیمرا کے اقدام کے درست تو کچھ نے غلط قرار دیا۔

اس دوران ٹوئٹر پر گالا بسکٹ، مہوش حیات اور پیمرا سے متعلق ہیش ٹیگز بھی ٹرینڈ کررہے تھے۔

عروج نامی ٹوئٹر صارف نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ کیا واقعی میں یہ ’بسکٹ’ کا اشتہار ہے؟ ہمارے مواد تخلیق کرنے والوں کو کیا ہوگیا ہے؟ جو ہر گزرتے دن کے ساتھ نیچے گرتا جارہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پیمرا نے ڈراما سیریل 'جلن' پر پابندی لگادی

انہوں نے مزید لکھا کہ ’صرف معیار کو بہتر بنائیں، بسکرٹ کے لیے مجرا کرنے سے آپ کو کچھ نہیں ملے گا‘۔

ایک اور صارف نے لکھا کہ یہ ٹوئٹ سمجھ سے باہر ہے، اگر آپ گالا کھائیں گے تو آپ بھی مہوش حیات کی طرح ڈانس کرنا شروع ہوجائیں گے۔

ٹوئٹر صارف نے لکھا کہ ایسے بے معنی مواد پر ٹوئٹ کرنا بند کریں، میرے خیال سے اس اشتہار میں کوئی بے ہودگی نہیں لہذا لوگوں کو نہ بتائیں کہ ٹوئٹر ٹڑینڈ بے معنی ہے اور اس کی کوئی اہمیت نہیں۔

انہوں نے ٹوئٹ میں پھر سوال کیا کہ کیا اس اشتہار پر واقعی ٹوئٹ کرنے کی ضرورت ہے؟

ایک اور صارف نے لکھا کہ اس گالا بسکٹ کے اشتہار میں کیا غلط ہے؟ یہ سوسائٹی ٹی وی پر تشدد دیکھ کر خوش ہوگی کہ عورت کو مارا جارہا ہے، لیڈرز نفرت پھیلارہے ہیں لیکن کوئی خاتون پورے لباس میں رقص کرلے تو یہ ہوتا ہے۔

علاوہ ازیں سوشل میڈیا پر یہ افواہیں بھی زیر گردش ہیں کہ پیمرا نے اشتہار پر پابندی لگائی ہے جبکہ اتھارٹی کی جانب سے مواد پر نظر ثانی کی ہدایت کی گئی ہے۔

ایک ٹوئٹر صارف نے لکھا کہ ایک بسکٹ کے لیے اتنا زیادہ ڈانس کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ ہر اشتہار میں خاتون کو نمائش کی چیز بنانا بند کریں۔

ایک اور صارف نے لکھا کہ گالا بسکٹ کے اشتہار پر پابندی کی وجہ سمجھ نہیں آرہی، جب ہمارے پاس ’جوانی پھر نہیں آنی‘ اور ’نامعلوم افراد‘ جیسی فلمیں ہیں اور ہم نے اس خاتون کو قومی اعزاز دیا جس نے پاکستان کے پہلے آئٹم سانگ میں سے ایک کیا۔

کچھ صارفین نے پیمرا کے اس اقدام پر تنقید کی اور لکھا کہ’ کاش پیمرا نے ان تھرڈ کلاس ڈراموں پر ایکشن لیا ہوتا‘۔

کچھ صارفین نے اداکارہ مہوش حیات کا ساتھ بھی دیا اور میمز شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ مہوش حیات کچھ بھی کریں تو لوگوں کا ردعمل یہ ہوتا ہے۔

ایک صارف نے لکھا کہ اس اشتہار میں کچھ غلط نہیں ہے، فلموں میں اور اس اشتہار میں کوئی فرق نہیں ہے تو یہ ٹرینڈ کیوں کررہا ہے؟

حنان نامی صحافی نے پوچھا کہ ایک بات سمجھ نہیں آئی کہ گالا بسکٹ میں ایسا کیا ہے جو ناچنے پر مجبور کردیتا ہے۔

خدیجہ نامی صارف نے لکھا کہ ہم ہمیشہ ہر چیز کا منفی پہلو کیوں دیکھتے ہیں، کیا ہم صرف اس چیز کو نہیں سراہ سکتے کہ ہماری ثقافت کوکس خوبصورتی سے فروغ دیا گیا ہے۔

انہوں نے لکھا کہ اور بھی بہت مسائل جنہیں توجہ کی ضرورت ہے اور جو لوگ تنقید کررہے ہیں کیا ان لوگوں نے ڈانس کی کوئی ویڈیو نہیں دیکھی؟ یہ تو پھر کلچرل ڈانس ہے۔

علاوہ ازیں اداکار احمد علی بٹ نے بھی انسٹا اسٹوری میں لکھا کہ 'پیمرا اور بھی دکھ ہیں زمانے میں بسکٹس کے سوا'۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں