بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کیلئے علما کا 20 نکاتی ’ضابطہ اخلاق‘ پر اتفاق

اپ ڈیٹ 07 اکتوبر 2020
بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کیلئے علما نے 20نکاتی ضابطہ اخلاق پر اتفاق کیا— فائل فوٹو: ڈان
بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کیلئے علما نے 20نکاتی ضابطہ اخلاق پر اتفاق کیا— فائل فوٹو: ڈان

اسلام آباد: تمام مرکزی دھارے کے مکاتب فکر سے وابستہ مذہبی رہنماؤں نے ملک میں مذہبی ہم آہنگی اور فرقہ وارانہ اختلاف کو ختم کرنے کے لیے 20 نکاتی ’ضابطہ اخلاق‘ کی توثیق کی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق منگل کو اسلامی نظریاتی کونسل کے زیر اہتمام پیغام پاکستان کانفرنس میں ضابطہ اخلاق جاری کیا گیا۔

مزید پڑھیں: وزیر اعظم کا علما سے مذہبی ہم آہنگی کیلئے مثالی کردار ادا کرنے پر زور

کانفرنس میں روشنی ڈالی گئی ہے کہ کسی بھی گروہ یا فرد کے خلاف کفر کا فیصلہ جاری کرنے کا دائرہ اختیار صرف عدالتوں کا ہے۔

ضابطے میں کہا گیا کہ نفاذ اسلام کے نام پر ہر طرح کے جبر، ریاست کے خلاف مسلح کارروائی، تشدد اور انتشار کو بغاوت سمجھا جانا چاہیے، پاکستان کے غیر مسلم شہریوں کو اپنے عقائد کے مطابق اپنے مذہب اور مذہبی رسوم پر عمل کرنے کا حق ہے۔

اس ضابطہ اخلاق پر متعلقہ حکام اور ملک کے مرکزی دھارے کے اسلام کے چار مکاتب فکر بریلوی، اہل تشیع، دیوبندی اور اہل حدیث کے علما کے دستخط ہوئے ہیں۔

ضابطہ اخلاق پر دستخط کرنے والوں میں وزیر مذہبی امور نورالحق قادری، سی آئی آئی کے چیئرمین قبلہ ایاز، مفتی تقی عثمانی، مفتی منیب الرحمن، علامہ ساجد میر، حنیف جالندھری، ڈاکٹر محمد راغب نعیمی، سید افتخار حسین نقوی، مجلس وحدت المسلمین کے سیکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس، پیر نقیب الرحمن، علامہ عارف واحدی اور سید ضیا اللہ شاہ بخاری شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ایک دوسرے کو کافر قرار دینے کے طرزِ عمل سے گریز کرنا ہوگا، صدر مملکت

کانفرنس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم کے مشیر برائے مذہبی ہم آہنگی حافظ طاہر اشرفی نے ملک کے بزرگ مذہبی رہنماؤں کے ذمہ دارانہ رویے کی تعریف کی اور کہا کہ سابقہ ​​ایسی کوششوں اور موجودہ ضابطہ اخلاق کے درمیان فرق اس کے مستقبل کے عمل درآمد کا منصوبہ ہے۔

حافظ اشرفی نے کہا کہ ہم نے نچلی سطح پر 20 نکات پر عمل درآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو عوام کے درمیان علما کے فیصلے کے بارے میں معلومات فراہم کرنا ضروری ہے, اس سلسلے میں ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ مذہبی واقعات کا مرحلہ انتہا پسندوں اور کم تعلیم یافتہ مولویوں کے ہاتھ میں ہے۔

ضابطہ اخلاق میں کہا گیا کہ پاکستان میں تمام شہریوں کو ریاست سے بیعت کرنا چاہیے اور اظہار رائے کی آزادی اسلام اور زمین کے قوانین کے تابع ہے۔

اسی طرح یہ میڈیا اہلکاروں کی بھی ذمہ داری ہے کہ ایسا کوئی پروگرام نشر نہ کیا جائے جو فرقہ وارانہ منافرت پیدا کرے اور پاکستان کے اسلامی تشخص کو نقصان پہنچائے۔

ضابطہ اخلاق میں کہا گیا کہ کوئی بھی شخص مساجد، امام بارگاہوں یا کسی مذہبی یا معاشرتی اجتماع میں نفرت انگیز تقریر نہیں کرے گا۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد: ریلی میں فرقہ واریت کو ہوا دینے پر کالعدم گروپ کے رہنما کے خلاف مقدمہ

اس ضابطے میں بنیادی طور پر اسلام کے نام پر ملک کے کچھ حصوں میں خواتین کے حقوق دبانے سے متعلق سماجی امور کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔

اس ضابطے میں کہا گیا ہے کہ اسلام خواتین کے حقوق، ان کی تعلیم، روزگار اور ووٹنگ کے حقوق کی حفاظت کرتا ہے جس کا تحفظ کیا جائے گا اور علما کے کردار پر زور دیا گیا کہ وہ غیرت کے نام پر قتل، قرآن پاک سے شادی، ونی، کاروکاری وغیرہ جیسی مخصوص روایات کو روکیں۔

اس ضابطے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اختلاف رائے کے آداب کو سرکاری، نجی اور مذہبی تعلیمی اداروں کے نصاب میں شامل کیا جائے گا۔

اس میں مزید کہا گیا کہ کوئی بھی دہشت گردی، دماغی یا جسمانی تربیت یا دہشت گردی کے لیے بھرتی کو فروغ نہیں دے گا اور کسی مسلمان کی تعریف وہی ہے جو آئین پاکستان میں لکھی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 'بعض داخلی و خارجی قوتیں ملک کو فرقہ وارانہ تصادم کی طرف دھکیل رہی ہیں'

یہ منظور کیا گیا کہ کسی کے عقائد اور عقائد کی تبلیغ کرنا افراد کا حق ہے لیکن کسی بھی فرد، ادارے یا فرقے کے خلاف نفرت یا بے بنیاد الزام تراشی کی اجازت نہیں ہو گی۔

علمائے کرام، مشائخ اور ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو چاہیے کہ وہ معاشرے میں تشدد کے خاتمے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ملک کی مسلح افواج سے اپنا مکمل تعاون کریں۔

اس ضابطے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کسی بھی فرد کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ حکومت، مسلح افواج یا دیگر سیکیورٹی اداروں کے کسی فرد کو کافر قرار دے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں