بلدیہ فیکٹری کیس: سندھ ہائیکورٹ نے سندھ کے پراسیکیوٹر جنرل کو نوٹس جاری کردیا

اپ ڈیٹ 13 اکتوبر 2020
سزا کے خلاف اپیل کا ملزمان  کو قانونی حق حاصل ہے اور موجودہ کیس میں اپیلیں مقررہ مدت میں دائر کی گئیں، عدالت — فوٹو بشکریہ میڈیا کامنز
سزا کے خلاف اپیل کا ملزمان کو قانونی حق حاصل ہے اور موجودہ کیس میں اپیلیں مقررہ مدت میں دائر کی گئیں، عدالت — فوٹو بشکریہ میڈیا کامنز

کراچی: سندھ ہائیکورٹ نے بلدیہ فیکٹری آتشزدگی کیس میں سزا پانے والے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے دو سابق کارکنوں اور تین دیگر افراد کی اپیلوں پر سندھ کے پراسیکیوٹر جنرل اور شکایت کنندہ کو پیر کو نوٹسز جاری کردیے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انسداد دہشت گردی کی عدالت (اے ٹی سی) کی جانب سے گزشتہ ماہ سزائے موت پانے والے ایم کیو ایم کے سابق سیکٹر انچارج عبد الرحمن عرف بھولا اور زبیر عرف چریا سمیت فیکٹری کے تین چوکیداروں، فضل احمد، ارشد محمود اور محمد علی، جنہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے، نے اپنے وکیلوں کے ذریعے ٹرائل کورٹ کے حکم کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا۔

جسٹس محمد کریم خان آغا کی سربراہی میں دو ججز پر مشتمل بینچ نے کہا کہ سزا کے خلاف اپیل کا ملزمان کو قانونی حق حاصل ہے اور موجودہ کیس میں اپیلیں مقررہ مدت میں دائر کی گئیں۔

مزید پڑھیں: بلدیہ فیکٹری کے مرکزی ملزمان کی سفاکی

باقاعدہ سماعت کے لیے اپیلوں کو مقرر کرتے ہوئے بینچ نے پراسیکیوٹر جنرل اور شکایت کنندہ کو نوٹس جاری کردیا۔

بینچ نے ٹرائل کورٹ سے کیس کا ریکارڈ اور کارروائی بھی طلب کی اور اپیل کنندگان کے وکلا کو ہدایت کی کہ وہ اگلی سماعت سے قبل ایک کتاب تیار کریں۔

بینچ نے اپنے دفتر سے یہ بھی کہا کہ وہ ان اپیلوں کو چار ماہ بعد سماعت کے لیے طے کریں۔

واضح رہے کہ 22 ستمبر کو اے ٹی سی نے عبدالرحمٰن اور زبیر کو سزائے موت اور فیکٹری کے 4 چوکیداروں کو عمر قید کی سزا سنائی تھی جبکہ اس وقت کے صوبائی وزیر تجارت و صنعت رؤف صدیقی سمیت دیگر چار افراد کو بھی ثبوتوں کی عدم دستیابی پر سزا دی تھی۔

ایم کیو ایم کے دو کارکنوں کے وکیل محمد منصور اور تماز خان نے استدلال کیا کہ فیصلہ عدالتی سوچ کو استعمال کیے بغیر اور عدالت عظمیٰ کے بتائے گئے اصولوں پر عمل کیے بغیر دیا گیا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ٹرائل کورٹ نے استغاثہ کے ثبوتوں پر واضح تضادات کو بھی مدنظر نہیں رکھا ہے۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ فیکٹری مالکان اور متعلقہ محکموں کی لاپرواہی کی وجہ سے لوگ جاں بحق ہوئے کیونکہ انڈسٹریل یونٹ میں کوئی ہنگامی خارجی راستہ نہیں تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ بھتہ خوری کے الزام کے بارے میں ٹرائل کورٹ کے سامنے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس: کب کیا ہوا؟

وکیل نے یہ بھی دلیل پیش کی کہ استغاثہ گودام کے انچارج کی جانچ پڑتال کرنے اور اپنے کیس کو ثابت کرنے کے لیے سی سی ٹی وی فوٹیج پیش کرنے میں بھی ناکام رہا ہے تاہم ٹرائل کورٹ اس کیس کے اس پہلو پر غور کرنے میں ناکام رہی جس نے کیس کو انتہائی مشکوک بنا دیا۔

انہوں نے یہ بھی دعوی کیا کہ ٹرائل کورٹ بھی اس بات پر غور کرنے میں ناکام رہی ہے کہ فیکٹری مالکان نے پاکستان چھوڑنے کے بعد بھی کسی کے خلاف کوئی درخواست جمع نہیں کروائی تھی۔

اپنی اپیل میں انہوں نے عدالت سے سزائے موت کو ختم کرنے کی استدعا کی۔

تینوں چوکیداروں کے وکیل فاروق حیات نے دلیل دی کہ ان کے مؤکلوں کو قیاس آرائی کی بنا پر سزا سنائی گئی ہے اور موجودہ معاملے میں شک کا ہر فائدہ ملزم فریق کے بجائے استغاثہ کو دیا گیا ہے جو آئین کے آرٹیکل 10 اے کی خلاف ورزی ہے۔

انہوں نے مزید دعویٰ کیا کہ کوئی ثبوت ریکارڈ پر نہیں لایا گیا جس سے یہ ثابت کیا جا سکے کہ اپیل کنندگان کی کوئی جرم کی نیت تھی۔

وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ ان کے مؤکلوں کو مشترکہ نیت کے الزامات میں سزا سنائی گئی ہے تاہم مشترکہ نیت کے تقاضوں کو یا اسے قائم کرنے کے لیے براہ راست ثبوت کا ہونا ضروری تھا۔

انہوں نے کہا کہ ریکارڈ پر اس بات کا کوئی ثبوت دستیاب نہیں ہے کہ اپیلیں مشترکہ نیت اور بد عنوانی کے جرم میں کمیشن میں شامل تھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں